پتھر ہر دور میں انسانی زندگی کا ایک نہایت اور اہم حصہ رہا ہے۔ اس کا تاریخی، مذہبی اور تہذیبی پسِ منظر کو جاننے کے لیے ہمیں ہزاروں سال قبل یعنی قبل از تاریخ اور قبل از مسیح دور کے انسان کی تاریخ اور قدیم نوادرات و آثار کی باقیات کا بنظرِ غائر تاریخی شعور کے ساتھ مطالعہ اور مشاہدہ کرنا ہوگا۔ تب ہمیں اس حقیقت کا علم ہو پائے گا کہ آج سے ہزاروں سال قبل انسان کن، کن معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی انقلابات اور ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ دور تک آپہنچا ہے۔
فطرت کے دیگر مظاہر کی طرح پہاڑوں اور پتھروں کے ساتھ انسان کے تعلق اور رشتے کی کہانی بڑی طویل بھی ہے عجیب بھی، حیرت انگیز اور دل چسپ بھی ہے۔ کیوں کہ اسی پتھر (چقماق) کی رگڑ سے انسان نے آگ ایجاد کرنے کا راز معلوم کر کے ایک نئی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی بنیاد رکھی۔ شکار اور کھیتی باڑی کے لیے پتھر سے آلات و اوزار بنائے، اناج کو پتھر کی چکیوں کے ذریعے پیسنے کی صنعت (چکی) ایجاد کر ڈالی۔
ابتدائی انسان کی تاریخ کے مطالعے اور آثارِ قدیمہ کے مشاہدے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل دنیا کی اکثر اقوام میں پہاڑوں، چٹانوں اور پتھروں کی پوجا کا رواج عام تھا۔ اس بات کا ثبوت نہ صرف اس دور کے انسان کی ہنرمندانہ باقیات سے ملتا ہے، بلکہ مستحکم اشیاء مثلاً بت، مورتیاں، لاٹ، ستون پر پتھر کی تختیوں اور چٹانوں پر کندہ مختلف نقش و نگار، تصاویر اور مجسموں سے بھی ملتا ہے۔
اس کے علاوہ پتھر اور جانوروں کے سینگ کے بنے ہوئے آلات اور اوزار بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں جو کسی حد تک سماجی، مذہبی اور تہذیبی طور پر معیاری اشکال کے ہوچکے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بیشتر علاقوں میں کھدائی کے دوران میں پتھر کے بنے ہوئے ایسے بے شمار نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ جن کی روشنی میں ہمارے اکثر مورخین اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں فنِ تعمیر کے علاوہ کوزہ گری، سنگ تراشی، مجسمہ سازی، نقش و نگار اور نگینہ سازی کے فن نے بھی خوب ترقی کی تھی۔
تخت بھائی، جامل گڑھی، آکڑہ (بنوں)، سوات، مردان، صوابی اور قبائلی اضلاع میں قدیم دور کے جو نوادرات اور آثار ملے ہیں یا مل رہے ہیں، ان میں خصوصیت کے ساتھ سنگ تراشی کے نمونے بکثرت ہاتھ آئے ہیں جو فن کارانہ حیثیت سے قابلِ تعریف اور قدیم دور کے انسان کے کمالِ فن کا پتا دیتے ہیں۔ انہی پتھروں کے انسان نے اگر ایک جانب اپنے لیے دیوتا، مورتیاں اور بت تراشے ہیں، تو دوسری طرف اپنی معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی تاریخ کو محفوظ اور اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے بھی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے سلاطین اور ہیروز کے خدوخال اور ان کے علمی و جنگی کارنامے فنِ سنگ تراشی کے ذریعے دکھائے گئے ہیں۔
اپنے اسلاف اور بزرگ ہستیوں کے مجسمے، شکار، کھیتی باڑی اور عبادت کرنے کے مختلف مناظر اور مظاہر کو قدیم دور کے انسان نے فنِ سنگ تراشی کے ذریعے نہ صرف دکھانے کی ایک کام یاب فن کارانہ کوشش کی ہے، بلکہ قدیم معاشرت، تاریخ اور تہذیب کو محفوظ اور ہم تک پہنچانے کا ایک بہت بڑا عظیم کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ جس کو دیکھنے سے اس زمانے کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ بشرط یہ کہ ہم ان آثار اور باقیات کو اپنے تاریخی شعور کی آنکھ سے دیکھیں۔ ان میں انسانی مجسموں، اشیاء اور فطرت و معاشرے کے مقامی جانوروں اور پرندوں کے مجسمے اور تصویریں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ جنہیں سنگ تراشی کے ذریعے بڑے ہنرمندانہ انداز میں کھڑے، بیٹھے، بھاگتے، اُڑتے، چرتے اور شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
توہم پرستی کے سلسلے میں پتھر سے بنے ہوئے تعویز اور گنڈے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ جن پر کچھ آڑھی ترچھی لکیروں کے علاوہ چند مختلف جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ سنگی دستکاری اور ہنر مندی کے حوالے سے یہاں فنِ نگینہ سازی کے بھی بیشتر نمونے اور آثار دریافت ہوئے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کے قدیم باشندے ان نگینوں کو تراشنے، رنگنے، پالش کرنے اور ان پر طرح طرح کے پھول اور نقش و نگار بنانے کا ہنر بھی اچھی طرح جانتے تھے۔
حجری (پتھر) دور کے انسان کے اس فن اور ہنر کی تعریف کرتے ہوئے معروف ترقی پسند ادیب اور دانشور سید سبطِ حسن لکھتے ہیں کہ “جب ہم اس عہد کے غاروں کے رنگین نقش ونگار اور حسین مجسموں کو دیکھتے ہیں، تو اس شکاری انسان کی صناعی، ہنرمندی، فن کاری اور ذہانت پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قدیم حجری دور کے بعد آج تک دنیا کی کسی قوم نے کسی ملک اور کسی عہد میں بھی جنگلی جانوروں کی حسی کیفیات سے لبریز اتنی جان دار اور متحرک خوش رنگ، خوش آہنگ اتنی موزوں اور متناسب تصویریں نہیں بنائیں۔
قدیم حجری دور کا انسان اپنے فن میں یکتا و بے مثل ہے۔ کیوں کہ کسی دوسرے دور میں انسان کو جانوروں سے اتنا گہرا لگاؤ نہیں رہا اور نہ جانوروں کے کردار، مزاج، عادات و اطوار اور جسم کے مطالعے پر اس کی زندگی کا دار و مدار ہوا۔ قدیم حجری دور کے فن کار کی عظمت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ دورِ جدید کے کتنے ہی عظیم فن کار اس کی نقالی پر ہی اپنی شہرت کے پرچم اُڑاتے ہیں۔” حقیقت بھی یہ ہے کہ پتھر سے بنے ہوئے مجسموں، لاٹوں اور تختیوں پر قدیم انسان نے اس دور کی پوری معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی مکمل تاریخ رقم کی ہے۔
موسیقی گانے بجانے اور رقص و سرود کے سلسلے میں بھی ایسے نمونے ملتے ہیں، جن میں ایک شخص کو ڈھولک بجاتے اور چند کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس طرح کے مناظر مجسموں، مہروں اور تختیوں پر بھی ملتے ہیں جن میں لڑکیاں رقص کرتی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت کے انسانوں کا لباس، زیورات، بال رکھنے کے ڈیزائن، پاوں کے جوتے اور بناؤ سنگار کے طور طریقے بھی ہمیں ان مجسموں اور مورتیوں سے ملتے ہیں۔
اینٹوں اور ظروف سازی پر پالش اور رنگ چڑھانے کا ہنر بھی استعمال ہوا ہے۔ مکانوں کی تعمیر اور باغات میں پتھروں کا استعمال قدیم دور کے انسان کا عظیم کارنامہ ہے۔ کئی بڑے بڑے پتھر اتنے عظیم اور ٹھوس ہوتے ہیں کہ ان سے ابدیت کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ پتھر خاموشی اور سکوت کے مظہر ہیں۔ ان میں کردار کی قوت اور مضبوطی ہے جو بہت بڑے انسانوں میں ہوا کرتی ہے۔ اس طرح پتھر جتنے چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کی ترکیب، شکل اور رنگ میں ہلکے اور گہرے نشانات کے امتزاج کو خاص اہمت حاصل ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی خوب صورت اور قیمتی پتھروں کا استعمال مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ سونے، چاندنی، پیتل اور سٹیل سے بنی ہوئی انگوٹھیوں میں پتھر کے مختلف رنگ اور اقسام کے نگینوں کا رواج عام لوگوں سے لے کر اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اونچے اونچے خاندان کے افراد (مرد و خواتین) میں بھی موجود ہے۔ اور ان نگینوں کے ساتھ مختلف مذہبی اور روایتی اعتقادات، توہمات اور تصورات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ ان پتھروں کے نگینوں کے بارے میں نر اور مادہ کا تصور بھی رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں طرح طرح کے توہمات اور خیالات بھی رکھتے ہیں۔ قیمتی پتھر صرف ہماری اپنی روایات تک محدود نہیں بلکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر وال سٹریٹ کی گلیوں تک قیمتی پتھروں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
یہ نئی صدی کی بات نہیں بلکہ آج سے کئی صدیاں قبل کا انسان بھی قیمتی پتھروں کا استعمال کیا کرتا تھا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین مخصوص انسانی نسل کی عمر کا اندازہ قیمتی پتھروں سے لگایا کرتے تھے۔ برجوں پر عقیدہ رکھنے والے لوگ مخصوص پتھر کا استعمال ضرور کرتے ہیں۔ ہر برج کے لیے ایک پتھر مختص ہے جسے لوگ اپنے نام، عمر اور جنس کی مناسبت سے منتخب کرتے ہیں۔
زمانۂ قدیم میں قیمتی پتھروں کو لوگ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ عقیدہ آج بھی بعینہ موجود ہے۔ لوگ ان پتھروں سے مختلف انواع کے کرشمے وابستہ کر لیتے ہیں۔ اکثر لوگ جادو اور نظر بد کے توڑ کے لیے کوئی خاص پتھر استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا عقیدہ ان پتھروں پر اتنا مضبوط ہے کہ لوگ انہیں ضرورت سے زیادہ مقدس سمجھنے لگتے ہیں۔
قیمتی پتھروں کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اب اس کے کاروبار نے بھی ایک منافع بخش بزنس کی شکل اختیار کرلی ہے۔ روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے کے پتھروں کا ایک ملک سے دوسرے ملک کاروبار ہوتا رہتا ہے۔ پتھروں کے ان نگینوں میں بعض نگینوں کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ ان کا خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کئی بڑے بڑے صوفیوں اور ملنگوں کی انگلیوں میں پتھر سے بنے ہوئے مختلف اقسام اور نسل کے نگینے ہمارے روزمرہ مشاہدے کی بات ہے۔
اس طرح کئی لوگ ان نگینوں کو تعویز اور تبرک کے طور پر اپنے گلے میں بھی پہنتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں نگینوں کے گجرے باندھنے کا رواج بھی ہمارے بیشتر علاقوں اور شہروں میں آج بھی پایا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ نے جہاں دیگر شعبوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں، وہاں ہمارے کلچر، تہذیب اور روزمرہ کی زندگی کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
کل کا جو انسان مختلف قسم کے پتھر چن کر اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کرتا آرہا تھا، آج وہ گرافکس کی جھلملاتی دنیا تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ پتھروں کی تلاش میں دنیا کے کونے کونے کی خاک چھاننے والے آج خیالی عکسوں پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔ حتیٰ کہ گھروں، حجروں اور ڈرائنگ رومز میں پتھروں سے بنے ہوئے مختلف شکلوں کے ڈیکوریشن پیسز کی جگہ آج کی جدید پینٹگز نے لے لی ہے۔
دنیا کے سمٹنے کے ساتھ ساتھ انسان کی جائے سکونت بھی سمٹنے لگی ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ مجسموں اور سنگ تراشی کا شائق آج اپنے مشاغل کو ترک کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ہاتھوں اور گلے میں طرح طرح کے روایتی قیمتی پتھر پہننے والے بچوں کے گلے میں الیکٹرونک گیمز اور ہاتھوں میں موبائل فونز اور ڈیجٹل کھلونے نظر آرہے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ قیمتی پتھروں یا بالفاظِ دیگر نگینہ سازی جو ایک کاروبار اور صنعت بن چکی ہے۔ اس صنعت کو پروان چڑھانے اور اسے ترقی دینے کے لیے سب سے ضروری اقدام یہاں کا قیامِ امن ہے اور امن کا قیام تب ممکن ہوگا کہ پورے ملک بالخصوص خیبرپختون خوا میں پائی جانے والی مذہبی انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ اب بھی بیشتر علاقوں میں فنِ سنگ تراشی اور نگینہ سازی کے ہنر مند موجود ہیں۔ مگر “یہ عالم خوف کا دیکھا نہ جائے” کو ختم کرنا ہوگا۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: