پشتو موسیقی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پشاور یونی ورسٹی سے گلوکار راشد خان نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی کے “جھنڈا” نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے پشتو موسیقار راشد احمد خان نے پشاور یونی ورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ میں موسیقی پر تحقیق کر کے ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
قارئین، راشد احمد خان گذشتہ 20 سال سے پشتو موسیقی سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق؛ میری دلی خواہش تھی کہ میں پشتو موسیقی پر ادبی سطح (Literature Level) پر کچھ کام کروں، کیوں کہ ہماری پشتو موسیقی پر وہ کام نہیں ہوا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اگر موسیقی پر تحقیقی کام کا جائزہ لیا جائے، تو انڈیا اور پاکستان میں بھی بہت کم کام ہوا ہے۔ پشتو موسیقی تو کافی پیچھے رہ گئی ہے۔ کیوں کہ پشتو موسیقی پر کوئی مستند کتابیں نہیں ملتیں، اس لیے میری یہ خواہش تھی کہ اس پر کام کروں۔
38 سالہ راشد احمد خان کے مطابق؛ مجھے بہت اچھا موقع ملا کہ پشتو ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ مل گیا اور پھر میں نے تہیہ کرلیا کہ میں پشتو موسیقی پر تحقیق کروں گا۔ جس کے لیے میں پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور پشاور یونی ورسٹی کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ کہ انہوں نے مجھے پشتو موسیقی پر تحقیق کی اجازت دی۔ کیوں کہ میرا ریسرچ  پشتو موسیقی پر تھی اور یہ ریسرچ پہلی دفعہ پی ایچ ڈی لیول پر ہوئی ہے، جو اس سے پہلے افغانستان اور پاکستان میں نہیں ہوئی ہے۔

پشتو موسیقی کے معروف گلوکار راشد احمد خان، باچا خان فاؤنڈیشن کے زیرِ انتظام کام کرنے والے “انگازے پروڈکشن” کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی

راشد خان کہتے ہیں کہ اس سے پہلے لوگ پشتو کے مشہور گلوکار ڈاکٹر ناشناس استاد کے حوالے سے کہتے تھے کہ انہوں نے موسیقی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے لیکن وہ بات صحیح نہیں تھی۔ اس لیے یہ پہلی پی ایچ ڈی ہے جو موسیقی پر ہوئی ہے۔ اس میں میرا جو بنیادی مقالہ ہے وہ پشتو موسیقی کے مختلف مکاتب پر ہے، جس میں ہمارے یوسف زئی مکتب اور قندھاری مکتب پر ایک ایک چیپٹر ہے۔ ان کے بقول، یہ سب پشتو موسیقی کے سکول آف تھاٹس (School of Thoughts) ہیں، جنہیں انہوں نے اپنی تحقیق میں واضح کیا ہے کہ ان میں بنیادی فرق کیا ہے…؟ اس کے علاوہ ایک تفصیلی چیپٹر موسیقی کی تاریخ پر ہے۔ جس میں موسیقی کے مختلف آلات پر سیرِ حاصل بحث کیا گیا ہے، خاص طور پر رباب۔ بقولِ راشد خان، بعض لوگ کہتے تھے کہ رباب عرب سے آیا ہے یا جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونانی لوگ لے کر آئے تھے۔ یہ سب باتیں مَیں نے اپنی ریسرچ میں مختلف حوالہ جات کے ذریعے مسترد کی ہیں۔ رباب کا پرانا نام “وینا” تھا، لیکن بعد میں اس کا نام رباب پڑ گیا۔ مَیں نے اپنی تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ (رباب) ہمارے گندھارا کا انسٹرومنٹل (Instrumental) ساز ہے جو یہاں کا ہے۔
قارئین، راشد کہتے ہیں کہ پشتو موسیقی کے مختلف تال ہیں، جس میں  تینگڑا کی مختلف اشکال ہیں۔ پشتو موسیقی پر ہونے والے اس تحقیق میں بہت سی چیزیں لوگوں کے لیے نئی ہیں۔
قارئین، راشد خان خیبر پختون خوا میں ایک میوزک سکول (Musical School) بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا میں باقاعدہ ایک میوزک سکول ہونا چاہیے، جس کے لیے وہ کام کریں گے۔ ساتھ ہی فن کاروں کو چاہیے کہ موسیقی کے ساتھ ساتھ اس کا باقاعدہ علم بھی سیکھیں۔ اس طرح علاقائی موسیقی کو فروغ ملے گا۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: