ممتاز بلوچ قوم پرست سیاسی راہ نما و جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلا و گورنر بلوچستان نواب محمد اکبر خان بگٹی کے نام سے کوئی واقف نہیں، آپ 12 جولائی 1927ء کو قبیلۂ بگٹی کے سردار نواب محراب خاں بگٹی کے گھر بارکھان حاجی کوٹ ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم ڈیرہ بگٹی ہی سے حاصل کی جب کہ اس کے بعد ایچی سن کالج لاہور چلے گئے۔ وہاں سے فراغت ہوئی، تو اعلا تعلیم کےلیے آکسفورڈ یونی ورسٹی برطانیہ کا انتخاب کیا۔ آپ ابھی زیرِ تعلیم ہی تھے کہ 1939ء کو ان کے والدِ بزرگ وار محراب خان بگٹی کا انتقال ہوا۔ والد کے انتقال کے بعد ساری ذمہ داریاں آپ کی کندھوں پہ آئی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1944ء کو باقاعدہ طور پر اپنے قبیلے کے سردار کی حیثیت سے فعال ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ سندھ اور بلوچستان کے شاہی جرگہ کے رُکن بھی رہ چکے ہیں۔
آپ نے 1949ء کو حکومتِ پاکستان کی خصوصی اجازت سے “پاکستان سول سروس اکیڈمی” سے پی ایس ایس (اب سی ایس ایس) کا امتحان دیے بغیر تربیت حاصل کی۔
نواب صاحب تین شادیاں کرچکے ہیں، بیویوں میں ایک بگٹی، ایک پٹھان جب کہ ایک سندھی تھیں۔ پہلی بیوی سے چار بیٹے سلیم، ریحان، طلال اور سلال، دوسری بیوی سے ایک بیٹا جمیل اکبر اور دو بیٹیاں، جب کہ تیسری اور آخری بیوی سے ایک ہی بیٹا ہے۔
قارئین! 28 نومبر 1946ء کو مری بگٹی قبیلے کے دو سردار دوا خان مری اور نواب صاحب نے تاجِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ان کے قبائلی علاقے بھی قلات فیڈریشن میں شامل کی جائے۔ کیوں کہ اُس وقت بلوچستان کے دو حصے (قلات اور برٹش بلوچستان) تھے۔ آپ نے قیامِ پاکستان کے بعد آپ 1950ء کو ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کونسل کے رُکن منتخب ہوئے۔ ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں بحیثیتِ نائب وزیرِ دفاع شامل ہوکر ایک سال تک مذکورہ عہدے پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

نواب محمد اکبر خان بگٹی نے بحیثیتِ ممبر بلوچستان شاہی جرگہ تحریکِ پاکستان کی مکمل حمایت کی۔

آپ کو سب سے زیادہ سیاسی مشکلات کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا، جب 1955ء کو مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کے ساتھ دونوں حصوں کو یکجا کرکے “ون یونٹ سکیم” کا اطلاق کردیا گیا۔ 1956ء کو قائم ہونے والی چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے علمبردار جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو بلوچستان میں اُس وقت پذیرائی ملی، جب ایوبی دور کے آخر میں حکومتی جبر و تشدد کے باعث تین سردار نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطااللہ خان مینگل نیپ میں ہم سفر ہوئے، تو اُس وقت یہ نعرہ زبان زد عام ہوا:
“اتحاد کا ایک نشان، عطاء اللہ، خیر بخش، اکبر خان”
ایوبی حکومت کے خاتمے کے بعد نواب خیر بخش مری اور سردار عطااللہ مینگل نے باقاعدہ نیپ میں شمولیت اختیار کی۔ جب کہ نواب اکبر خان بگٹی EBDO (ایوب خان کی طرف سے سیاست دانوں کےلیے جاری کردہ “الیکٹڈ باڈیز ڈس کوالیفیکیشن آرڈر)، کی وجہ سے پارٹی میں شامل نہ ہوسکے، لیکن نیپ کی مکمل حمایت کرتے رہے۔
اگست 1962ء کو جب ایوب خان ملک میر خان کے ساتھ کوئٹہ آئے اور مسلح افواج کی حفاظت میں نہایت اشتعال انگیز تقریر کی، تو اگلے ہی روز بلوچوں نے جوابی جلسہ کیا جن میں سندھ کے سیاسی راہ نما میر رسول بخش تالپور بھی شامل تھے۔ جلسہ میں ایوب خان کی آمریت کو للکارا گیا، تو بلوچستان کے کونے کونے سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نواب صاحب بھی گرفتار ہوئے اور ان پر بغاوت اور قتل کا الزام لگا کر اسے سینٹرل جیل کراچی اے کلاس وارڈ نمبر 19 بھیجا گیا۔ مارشل لاء کے بعد ایک اور قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور چودہ سال قید کی سزا دی گئی لیکن کچھ عرصہ بعد پھر رہا کردئیے گئے۔
1973ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی حکومت کو برخاست کیا، تو اکبر بگٹی کو صوبے کا گورنر مقرر کیا۔ وہ دس ماہ گورنر رہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کی بنا پر مستعفی ہوگئے۔ 1980ء کو نواب صاحب نے ضیاء حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اس خاطر سیاسی حکمت عملی کا انوکھا اور منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسمبلی میں اُردو بولنے سے انکار کردیا۔ اُنہوں نے ہر جگہ اپنی مادری زبان میں تقریریں کیں لیکن پھر 1988ء کے انتخابات میں اُردو بولنا شروع کیا۔ 1988ء کے انتخابات میں نواب صاحب نے آزادانہ طور پر حصہ لیتے ہوئے بلوچ نیشنل الائنس کی راہ نمائی کی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِ اعلا بلوچستان منتخب ہوئے۔
16 اگست 1990ء کو کوئٹہ میں ساتھیوں کے ساتھ مشورے کے بعد “جمہوری وطن پارٹی” تشکیل دے دی۔ اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں جو حکومتی ڈھانچہ قائم ہوا، تو تمام سیاسی پارٹیاں برسرِ اقتدار تھیں سوائی جمہوری وطن پارٹی کے، جو حزبِ اختلاف میں تھی۔ 1993ء کو جمہوری وطن پارٹی ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ گئی۔ 1997ء کے انتخابات میں حصہ لینے سے نواب صاحب ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوئے۔ تاہم اُنہوں نے 2002ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

“میرے فکری وعملی ساتھی وہی ہیں جنہیں جان نہیں، بلکہ وطن عزیز ہو۔”
نواب اکبر خان بگٹی

قارئین! 1993ء کو بگٹی جھکرانی، جب کہ 2003ء کو بگٹی مزاری جنگ ہوئی، جس میں شدید فائرنگ کی وجہ سے گیس پائپ لائن تباہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد بگٹی مزاری کے باہمی مذاکرات کی وجہ سے اُن کی دشمنی ختم ہوکر حالات بہتر ہونے لگے لیکن جنوری 2005ء کو ڈاکٹر شازیہ کیس نے پورے بلوچستان میں آگ لگادی کیوں کہ بلوچ معاشرے میں خواتین کو ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ اس واقعہ کے بعد ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہوئے اور 07 جنوری 2005ء کو بگٹیوں نے ایک بار پھر راکٹ حملوں کے ذریعے گیس پائپ لائن اڑا دی جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں گیس سپلائی معطل ہونے کی وجہ سےحکومت کو یومیہ 120 ملین روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ پرویز مشرف نے حالات کو کنٹرول کرنے کےلیے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا جس پر بگٹی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچستان فتح کرنے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ کیوں کہ غیرت مند بلوچ فوجی آپریشن کی بھر پور مزاحمت کریں گے اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، کیوں کہ ہم اپنی حاکمیت اور بقا کی جنگ لڑنا جانتے ہیں۔” اور یوں ہر دن سورج طلوع ہونے کے ساتھ اس بوڑھے شیر کے حوصلے بلندتر ہوتے گئے۔ اُنہوں نے شازیہ کیس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت مظاہروں کو نہیں بلکہ بم دھماکوں کو دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کو ایک کیپٹن سمیت تین اہل کاروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ہم بلوچ اپنی سرزمین پر ایسے شرم ناک معاملات کو کسی طور پر برداشت نہیں کریں گے۔” نواب صاحب کی اس تقریر کی وجہ سے بلوچ روایات کو ایک نئی زندگی ملی۔ نواب صاحب بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے کہ اس دوران فوجی آپریشن میں شدت آگئی اور 17 مارچ کو سانحہ ڈیرہ بگٹی کا واقعہ پیش آیا۔ جس میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گھروں پر شیلنگ کرنے کی وجہ سے 70 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔ گولیوں کی آواز سنتے ہی نواب صاحب نے کہا ہم پر جنگ مسلط کردی گئی ہے، اور یوں اُنہوں نے پہاڑوں کا رُخ کیا۔ وہاں تیاری کے بعد بہادری کے ساتھ اپنی دفاع کرتے رہے۔

یہ بارکھاں کی وہ پہاڑی ہے، جہاں نواب صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے

اُس جنگ میں بلوچوں کی سیاسی اور سماجی شخصیات نواب صاحب کےلیے دعا گو تھے، اور اس کٹھن موقع پر نواب صاحب کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔ کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ یہ تصادم مزاحمتی تحریک کا حصہ ہے اور حصولِ آزادی تک جاری رہے گا۔
قارئین! حالات تیزی سے بدل رہے تھے، کوہلو، ڈیرہ بگٹی کے گرد جنگ شدت سے جاری تھی۔ سال 2003ء سے 2006ء تک نواب اکبر بگٹی بلوچوں اور مری قبیلے کے سرداروں سے مل کر حکومت کے خلاف صوبے کے حقوق کےلیے قوم پرستوں کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے۔ 13 اکتوبر 2005ء کو نواب صاحب نے مشرف کے نام اپنی آخری پیغام میں کہا کہ “جنرل صاحب! اپنے وعدے پر قائم رہیے، کیوں کہ ہمیں غم اور تکلیف توقع سے بڑھ کر ملا۔ ہم کسی بھی صورت بلوچستان کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ جس کےلیے چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں، گریز نہیں کریں گے۔”

نواب محمد اکبر خان بگٹی نے جب پہاڑ کی چوٹی پر دو افراد کے کندھوں کا سہارا لے کر چلنا شروع کیا، تو وہ لمحہ فوٹو گرافر بنارس خان کےلیے تصویر بنانے کا بہترین موقع تھا۔ کیوں کہ بیماری اور پیرانہ سالی کے باعث اکبر بگٹی کےلیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے چھڑی اور دو افراد کے سہارے کے بغیر زیادہ دیر تک چل پھر سکے۔ مذکورہ تین سہاروں کے ساتھ اگر ان کی تصویر میڈیا پر شائع ہوتی، تو شاید یہ ان کی صحت کی کمزوری کی عکاسی کرتی، اس لیے انہوں نے فوٹو گرافر بنارس خان کو تصویر لینے سے پہلے آواز دیتے ہوئے کہا کہ “میری تصویر اس طرح نہیں لینا، جس سے دشمن یہ سمجھے کہ بگٹی کمزور ہو گیا ہے۔”

نواب صاحب نے پیراں سالی میں مزاحمت کی اور بالآخر 26 اگست 2006ء کو تراتانی کوہ سلیمانی میں ان پر کلسٹر بموں سے حملہ کیا گیا جس میں آپ نے اپنے 37 محافظوں سمیت جام شہادت نوش کی اور ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے چلے گئے۔ نواب صاحب کی شہادت نے پوری بلوچ قوم کو نیند سے جگا دیا۔
قارئین! جاتے جاتے بس انہی کے ایک مشہور قول پر اجازت لینا چاہوں گا کہ: “میرے فکری وعملی ساتھی وہی ہیں جنہیں جان نہیں، بلکہ وطن عزیز ہو۔”

شیئرکریں: