پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ہے۔ یہاں جو قومیں آباد ہیں، وہ ہزاروں سالوں کی تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ قیام پاکستان سے اب تک ان قوموں کے ساتھ اگر ایک جانب سیاسی اور اقتصادی طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے، تو دوسری طرف ان کی تہذیب، زبانوں اور ثقافتوں کو بھی وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی یہ حق دار ہیں۔
قارئین، ہماری مادری زبانیں اور ثقافتیں بہت مضبوط ہیں۔ پشتو، بلوچی، سرائیکی، کھوار، پنجابی یا دیگر علاقائی زبانیں نہیں ہیں۔ اسے علاقائی زبانیں کہنا ان زبانوں کے ساتھ اور ان کے بولنے والوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ کیوں کہ بلوچی تین جب کہ پشتو اور پنجابی دو ملکوں کی زبان ہے، تو یہ علاقائی کیسے ہوئیں؟ زبانیں نافذ نہیں کی جاسکتیں۔ علاقائی زبانوں کے درمیان جگہ بناتے ہوئے انگریزی نے اپنا راستہ ہم وار کیا۔ انسانوں کے درمیان بھی اتنا واضح فرق موجود ہے کہ ماسوائے انسانیت کے ان میں کوئی دوسرا اشتراک نظر نہیں آتا۔ دنیا میں بہت ساری ایسی قومیں موجود ہیں کہ جن کے ظاہری خد و خال میں کوئی خاص فرق موجود نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی قومیت اور احساسات میں ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ان کے احساسات اور جذبات میں اختلافات کے سبب ان کے عقائد و تمدن اور علم و فنون دوسری قوموں سے علاحدہ اور واضح ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری ایشیائی اقوام کے درمیان کوئی خاص ظاہری و جسمانی اختلاف نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ ایک قوم شمار نہیں کی جاتیں۔ چوں کہ ان کے درمیان عقلی فاصل حد قائم ہے اور اس فاصل حد نے ان اقوام کی تاریخ کو ایک دوسرے سے علاحدہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ فاضل علماء نے قوموں کی تقسیم کا معیار ان کی زبان، مذہب اور سیاسی نظام میں اختلاف وغیرہ مقرر کیے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ان کی یہ تقسیم درست نہیں بلکہ عقل و فہم سے ماورا ہے۔ انسان صرف اعضاء کا نام نہیں ہے، اس کا ایک مزاج ہے، جسے عقلی مزاج کہتے ہیں۔ جس میں استقلال، آزادی، استحکام وغیرہ موجود ہیں اور یہ کسی بھی صورت جسمانی ترکیب سے کم نہیں۔ عقلی اور اخلاقی اوصاف، جن کے مجموعے سے کسی قوم میں ایک مشترک روح پیدا ہوتی ہے، زمانے اور ہزاروں سالوں کی گردش کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ اوصاف تر و تازہ رہتے ہیں۔ ان اوصاف کے مجموعے سے جو وصف پیدا ہوتا ہے اسے کسی قوم کا اخلاق کہتے ہیں۔ اس کی بدولت ایک قوم کا دوسری اقوام کے ساتھ فرق واضح ہوتا ہے۔
قوم کے بعد واپس ثقافت (Culture) کی تعریف کی طرف آتے ہیں۔ ثقافت جسے پشتو میں “دود” یا “کلتور” کہا جاتا ہے، کسی قوم کے مادی اور غیر مادی چیزوں پر مشتمل مجموعی عوامل ہوتے ہیں۔ جن میں لباس کے علاوہ اس قوم کے عقائد، تمدن، علوم و فنون، جذبات و احساسات اور معاشرے میں دوسرے انسانوں کے ساتھ معاشرتی ربط شامل ہیں۔ یہی خصوصیات مل کر قوم اور قومیت کی تشکیل کرتی ہیں۔ کسی قوم کی شناخت میں مخصوص عقلی مزاج، قومی روایات اور مخصوص رسم و رواج اس قوم کے تمدن میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان چیزوں کی پہچان کرنا ہر ہم درد فرد کا قومی و اخلاقی فرض بنتا ہے۔
افکار و خیالات جن کا مجموعی نام پشتون ثقافت ہے، جسے “پشتونولی” کہتے ہیں۔ پخت، پکت، وہ قدیم نام ہیں جن سے پختون (پشتون) اور پکتیکا ( پشتون خوا)کے ناموں کا رشتہ ہے۔ پشتو، پختونوں کی زبان، اور پشتونولی یا دود ان کی رہن سہن کے عادات و روایات کا نام ہے۔ ان روایات میں جرگہ، ایمان داری، ملی غرور، ننواتے، عہد و وفا، جنگ کے قوانین، آزادی و حریت، مہمان نوازی، بدرگہ، ملی استقلال، چیغہ، نسل و روایات کی پاس داری، ملی کھیل وغیرہ سرفہرست ہیں۔ یہ روایات و عادات پختونوں کے روز مرہ زندگی میں ایک دستور یا آئین کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر عمل نہ کرنے والے کو پختون معاشرے میں کم نظری سے دیکھا جاتا ہے۔
قارئین، یہی وہ روایات ہیں جن پر ماضی میں عمل کر کے پختون نہ صرف اپنے مسائل کا حل نکالتے تھے، بلکہ اسی قومی تشخص کے نتیجے میں پختونوں نے برصغیر پاک و ہند، ایرانی اصفہان، اور افغانستان پر بڑے جلال کے ساتھ حکم رانی کی۔ بہلول لودھی، ابراہیم لودھی، شیر شاہ سوری، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی (درانی) خاندان نے ہندوستان پر ساڑے تین سو سال تک حکم رانی اس انداز میں کی، کہ کہیں پر بھی ان کی سلطنت میں نسلی امتیاز، مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے واقعات پیش نہیں آئے۔ مزید یہ کہ من حیث القوم پختون جبر، تشدد اور مذہبی منافرت سے پاک قوم رہی ہے۔ جس کی واضح مثالیں بدھ مت مذہب کا سوات اور دیگر پختون علاقوں میں پروان چڑھنا ہے۔ “اشوکا” بادشاہ کا ہندوستان سے پختون وطن میں آ کر تشدد سے نفرت اور محبت کا پرچار، باچا خان کی عدم تشدد کی تحریک اور دیگر کئی تاریخی مثالیں موجود ہیں۔
آج پختونوں کے خلاف ایک خاص سازش کے تحت منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور ان کی ثقافت، تاریخ، رواج اور زبان وغیرہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ تھیٹر، سٹیج شو، مزاحیہ ٹی وی ڈراموں میں پختونوں کا بلاجھجک مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کو دہشت گرد، چوکیدار، جاہل اور ان پڑھ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ پشتو فلم انڈسٹری 60 کی دہائی میں انڈین فلموں کے مقابلے میں اچھی فلم تیار کرتی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے پختون کلچر کے ساتھ پشتو فلم انڈسٹری کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ حد یہ کہ اس خطے میں جہاں دہشت گردی سے سب سے زیادہ پختون متاثر ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد میں پختون ہی اس جنگ میں مرے ہیں، لاکھوں پختون بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کی معاش تباہ، نفسیاتی بیمار اور معاشرتی طور پر تباہ ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کو پختونوں کے قومی مزاج اور ثقافت سے جوڑنے کی سازش کی جاتی ہے۔ میڈیا پر طالبان اور دہشت گردی کو پختونوں کے ساتھ نتھی کرتے تھے۔ پختون ایک آزاد خیال قوم ہے، پختون معاشرے میں کلاشنکوف اور مدرسہ کلچر متعارف کروایا گیا۔ مولوی، جس کی حیثیت ماضی میں پختون معاشرے میں ایک یتیم سے زیادہ نہیں تھی اور اس کا کردار صرف مسجد میں نماز اور یا پھر فاتحہ، شادی و جرگہ میں دعا تک محدود تھا، کو مسجد سے نکال کر پختون معاشرے میں اقتدار کا مالک بنا دیا گیا۔ پختون معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر پختون ثقافت کو مسخ کرکے رکھ دیا گیا ہے اور ایک پرامن کلچر کو غیر پختون اور جنونی کلچر میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ان قوتوں کی وجہ سے اس قوم کو ماسوائے غلامی، معاشی بدحالی، جنونیت اور نفرت کے کچھ نہیں ملا۔ پختون تاریخی طور پر امن کی پجاری قوم ہے، اس کی ثقافت اور تربیت اسے اس چیز کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ ہمیں جنونیت کے ماحول سے اپنی نسل کو بچانا ہوگا اور اسے معاشرے کا ایک مفید و ذمہ داری شہری بنانا ہوگا۔ اس برائی سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ موجودہ تعلیمی نظام نہیں بلکہ قومی سیاست کا حصہ بن کر سیاسی و فکری جد و جہد کے ذریعے قوم کو شعور دینا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کےلیے تیار بھی ہیں یا نہیں…؟
______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: