سابق گورنر صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) اور "شہیدِ وطن” کا لقب پانے والے حیات محمد خان شیرپاؤ 1937ء میں ضلع چارسدہ کے گاؤں شیرپاؤ سے تعلق رکھنے والے معروف زمیں دار اور تحریکِ پاکستان کے سرکردہ سیاسی راہ نما غلام حیدر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چارسدہ میں حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی۔
قارئین، حیات محمد خان شیرپاؤ زمانہ طالب علمی میں ہی طلباء کے مسائل حل کرنے کےلیے سرگرمِ عمل رہے جب کہ تعلیم سے فراغت کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ موصوف نے عملی سیاست کا آغاز "پاکستان مسلم لیگ” کے پلیٹ فارم سے کیا۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں آمریت کی بجائے جمہوریت کےلیے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حمایتِ یافتہ رہے۔ نومبر 1967ء میں جب اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے "معاہدہ تاشقند” پر اختلافات کی بنا پر ایوب خان کابینہ سے استعفا دیتے ہوئے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا، تو صوبہ سرحد میں مجوزہ نئی سیاسی جماعت کی قیادت کےلیے ان کی نظرِ انتخاب نوجوان سیاست دان حیات محمد خان شیرپاؤ پر پڑی۔ یوں انہوں نے شیرپاؤ کو نئی سیاسی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ چوں کہ حیات شیرپاؤ پہلے سے ہی ایوبی آمریت کے خلاف برسرِ پیکار تھے، اس لیے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے بانی رُکن کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی زیرِ قیادت نئی سیاسی پارٹی کے قیام کےلیے ابتدائی سرگرمیوں میں بھٹو کے ساتھ رہے۔ لاہور میں جب پارٹی کا تاسیسی کنونشن منعقد ہوا، تو نومولود پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) رکھا گیا۔ موصوف پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔
1968ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے زیرِ قیادت پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایوب خان کے خلاف بھر پور ملک گیر تحریک شروع ہوگئی، تو اُس دوران میں حیات شیرپاؤ ہر مرحلے میں بھٹو کے شانہ بشانہ رہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کئی بار ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہم راہ "ڈی پی آر” کے تحت پہلے پشاور جیل اور پھر بہاول پور جیل میں نظر بند کر دیے گئے، لیکن وہ آمریت کے آگے نہ جھکے اور نہ بکے۔ 1968ء ہی میں حیات محمد خان شیرپاؤ کے آبائی گاؤں شیرپاؤ (چارسدہ) میں پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کا کنونشن منعقد ہوا جس میں حیات محمد خان شیرپاؤ کی بحیثیتِ پارٹی کے صوبائی صدر کی توثیق کی گئی اور پارٹی کے دیگر صوبائی عہدے داروں کا انتخاب بھی عمل میں لایا گیا۔ کنونشن کے بعد بھٹو نے حیات شیرپاؤ کے ہم راہ صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے میونسپل پارک میں ان کے جلسہ عام پر نہ صرف فائرنگ کی گئی بلکہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا۔ لیکن بھٹو اور حیات شیرپاؤ سٹیج پر ڈٹے رہ کر آمریت کے سامنے سر جھکانے کی بجائے جد و جہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور حیات محمد خان شیرپاؤ ایک تقریب میں شرکت کےلیے جارہے ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومتی تشدد کا مقابلہ کرنے کے بعد بھٹو اور حیات شیرپاؤ نے پشاور کے شاہی باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جس کی وجہ سے ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ اس ابھرتی ہوئی تحریک کو دبانے کےلیے جنرل یحیٰ خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ مارشل لاء کے دوران میں بھی عوامی تحریک جاری رہی اور عوامی دباؤ پر بالآخر جنرل یحیٰ خان نے 1970ء میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ مغربی (موجودہ) پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ جب کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ ان انتخابات میں حیات شیرپاؤ نے خان عبدالقیوم خان کو شکست دے کر پشاور سے سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ لیکن 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکا کے بعد جب بھٹو کو اقتدار سونپا گیا، تو انہوں نے حیات محمد خان شیرپاؤ کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کر دیا۔ یوں موصوف صوبہ سرحد کی تاریخ میں سب سے کم عمر گورنر بن گئے۔
قارئین، 1974ء میں جب صوبہ سرحد میں تخریب کاری اور بم دھماکے عروج پر تھے اور امن وامان کی صورتِ حال ابتر ہوتی گئی، تو حالات کو معمول پر لانے کےلیے اُنہیں صوبے کا سینئر وزیر مقرر کردیا گیا۔ سینئر وزیر کی حیثیت سے عوام کا اعتماد بحال کرنے اور مستقل قیامِ امن کےلیے صوبے بھر کے دورے شروع کئے۔ موصوف اپنی ولولہ انگیز سیاست کی بدولت انتہائی قلیل عرصے میں ہر مظلوم، کسان، مزدور اور غریب کی آواز بن کر ان کے دلوں میں بسنے لگے۔ اُن کی قیادت اور طرزِ سیاست مخالف سیاسی پارٹیوں کےلیے مستقل خطرے کا پیغام بننا شروع ہوا۔ یہی عمل ان کی موت کا پیغام لے کر ان کی شہادت کا باعث بنا۔
موصوف کو 08 فروری 1975ء کو پشاور یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کے طالب علموں کی انجمن کے نو منتخب عہدے داروں کی حلف برداری کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ پروگرام کے مطابق وہ 08 فروری کی دوپہر سول سیکرٹریٹ سے پشاور یونی ورسٹی کےلیے روانہ ہوئے۔ تہکال پایاں کے قریب سڑک کی دوسری طرف ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ یوں یہ اُن کی آخری ملاقات تھی۔
ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میں خطاب کے دوران میں حیات شیرپاؤ دھماکے میں شہید ہوئے۔ یوں وہ دہشت گردی کے نتیجے میں تاریخ کے پہلے شہید قرار پائے۔ ان کی شہادت پر پورا صوبہ سرحد سوگوار تھا۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی، یوں یہ تاریخ کا ایک بڑا جنازہ سمجھا جاتا ہے۔

حیات محمد خان شیرپاؤ کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے تمام تر خطرات اور مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی ادھورے مشن کی تکمیل کےلیے عوامی سیاست میں قدم رکھا۔
فوٹو: VOA

قارئین، عوامی خدمت اور سیاست میں مصروفیت نے انہیں گھر بسانے کا موقع نہیں دیا۔ حیات شیرپاؤ کے ادھورے مشن کی تکمیل کےلیے ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے تمام تر خطرات اور مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان کے صاحب زادے سکندر حیات خان شیرپاؤ نے بھی اپنے چچا اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نوجوان قیادت کی حیثیت سے سیاسی عمل میں اپنے والد کا ساتھ دے کر پختون سیاست میں نئی روح ڈال دی ہے۔
قارئین، حیات محمد خان شیرپاؤ اپنے دورِ اقتدار میں بیش بہاء ترقیاتی کام کرنے کی بدولت آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ حیات آباد ٹاؤن شپ، شیرپاؤ ہسپتال کا قیام، صوبے اور بالخصوص پشاور کو سوئی گیس کی سپلائی، صوبے کے دور دراز علاقوں کو بجلی کے بڑے بڑے منصوبے اور اس جیسے دوسرے بڑے میگا پراجیکٹس ان کے مرہونِ منت ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی ہوتی، تو پختون سرزمین کی تقدیر شاید کچھ اور ہوتی۔ یہاں کے عوام ترقی اور خوش حالی کے مزے لوٹتے، صوبہ ترقی اور خوش حالی کی نئی منزلیں طے کرتے ہوئے دکھائی دیتا اور امن و سکون سب کا مقدر ہوتا۔ لیکن دشمن نے حیات محمد خان کو قتل کرکے ایک سیاسی عہد اور ایک مضبوط عوام دوست نظریے کا قتل کیا۔ آج حیات محمد خان شیرپاؤ ہم میں نہیں، مگر ان کی عوام سے بے لوث محبت انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
_______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: