جب میں نے اپنے استادِ محترم ساجد ابو تلتاند صاحب کے توسط سے خیرالحکیم المعروف وکیل حکیم زئی صاحب سے ملاقات کی، اور ان کی سیاسی و ادبی خدمات پر اپنے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو مقالے کا جامہ پہنایا تو میرا ان سے روحانی رشتہ سا پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا اور یوں میرا اور وکیل حکیم زئی صاحب کے ملنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ ابو تلتاند صاحب سے میں نے وکیل حکیم زئی صاحب کے چھوٹے بھائی پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن ملاقات کی شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن وکیل حکیم زئی کو عید کی مبارک باد دینے کےلیے اپنے چچا زاد بھائی ہارون کے ہمراہ “حکیم زئی برادران حجرہ” برہ درش خیلہ پہنچ گیا تو گیٹ میں داخل ہوتے ہی حکیم زئی برادران کے ارد گرد ایک ہجوم دیکھا۔ وکیل حکیم زئی صاحب کو عید کی مبارک باد دی اور باچا لالا کی جانب بڑھا، تو انہوں نے پہل کرتے ہوئے مجھے عید کی مبارک باد دی۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات کی ایک مختصر سی کہانی، جس میں آپ نے میری ایسی سواگت کی، جیسے ہماری برسوں سے جان پہچان ہو۔ ایسا برتاؤ اپنے سے بڑی عمر کے شخص کا پہلے بار دیکھا۔ گیٹ میں دیکھتے ہی اپنی نشست سے اٹھ کر مجھے گلے ملے تھے۔ ملتے ہی مجھے میرے نام سے پُکارا۔ مجھے اپنے کانوں پر بالکل یقین نہ آیا۔ لیکن جب باتیں شروع ہوئیں، تو آپ مجلس میں بیٹھے تمام افراد سے لاتعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ مجھ ہی پر مرکوز رکھی۔ یہ برتاؤ دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپ میرے دیرینہ دوست ہیں۔اسی وقت میں ان کا گرویدہ ہوا۔ ان کی عالمانہ باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں لیکن گفتگو میں شائستگی اور روانی ایسی تھی کہ میرے فہم و فراست کے بند خانے کھلتے گئے اور مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے ساجد ابو تلتاند کے ہمراہ ان کے ساتھ ایک لمبی نشست کر ڈالی، لیکن وقت گزرنے کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ واپسی پر جب گھر آیا تو دل میں ٹھان لی کہ مذکورہ نشست کی روشنی میں ان کی ذات کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ سپرد قلم کرکے ہی رہوں گا۔ آج اللہ تعالا نے توفیق عطا کی ہے، اس لیے موصوف پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتا ہوں۔
قارئین! اللہ تعالا کریم ذات ہے جس نے اگر ایک طرف وادی سوات کو خوش گوار آب و ہوا اور قدرتی حسن دیا ہے تو دوسری طرف مختلف شعبہ ہائے زندگی کی عظیم شخصیات اس مٹی کو عطاء کیں ہیں۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درش خیلہ سے تعلق رکھنے والے نامور مفکر، مؤرخ، ماہر لسانیات، ادیب، شاعر اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی صاحب بھی ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے کے بعد جو کچھ میرے پلے پڑا وہ یوں ہے:
آپ کا قد متوسط، چھریرا بدن، مخروطی انگلیاں، کانوں میں رس گھولتی آواز، سرخ رنگت جسے انکساری، بردباری اور عمیق مطالعہ نے کسی حد تک سیاہی مائل کردی ہے۔ جواں رہنے کا راز داڑھی چٹ کرنے میں ڈھونڈتے ہیں لیکن حقیقت میں گالوں اور جبڑوں کے درمیان سے گوشت غائب ہے اور یہ جگہ اندر دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ناک خاندانی شناخت کےلیے علامت کے ساتھ چہرے پر وجاہت لانے کےلیے کافی ہے۔ کان نہ زیادہ اُبھرے نہ دھنسے، نہ چھوٹے اور نہ بڑھے ہی ہیں۔ سر کے بال بائیں ہاتھ سے کنگھی کرتے ہیں۔ گویا پیشانی کی چمک رنگ آلود بالوں سے چھپانے کی کوشش میں ہوں۔ آنکھیں پر جلالت ہونے کی دلیل ہے جس میں خوشی، غم، غصہ اور احسان مندی کی چمک مختلف اوقات میں آشکارا ہوتی رہتی ہے۔ بھوئیں، جو زیادہ گھنی نہیں، آنکھوں کی پُرعظمت ہونے کا ثبوت ہے۔ مناسب کالی مونچھیں، جس میں ایک آدھ سفید بال اور منہ ٹھوڑی سمیت سر کی جسامت کے ساتھ مناسب ہیں۔ لباس کے معاملے میں زیادہ سادہ ہیں اور نہ ہی فیشن ایبل، لیکن اکثر واسکٹ کپڑوں سے میچنگ پسند کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی صاحب 21 نومبر 1964ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درش خیلہ میں یوسف زئی قبیلے کے بوڈا خیل خاندان کے ایک دلیر اور بہادر شخصیت عبدالحکیم المعروف سور حکیم کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول برہ درش خیلہ سے حاصل کی۔ حکیم زئی صاحب نے 1982ء اور 1984ء میں جہانزیب کالج سے بالترتیب ایف اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ماسٹر ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اسی طرح علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جو سوات کی سطح پر پشتو میں پہلی پی ایچ ڈی تھی۔ موصوف کی زندگی اور تعلیمی سفر بارے آپ شہاب شعور کی کتاب ” ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی (جوند او قلم)“ مطالعہ کرسکتے ہیں۔
قارئین! حکیم زئی صاحب کی صحت پر دشمن کو بھی ترس آئے گا لیکن خود ان کو اپنی صحت پر نہیں آتا۔ حالاں کہ وہ عالم ہیں اور اپنی صحت ہر کسی کو پیاری ہے۔ گھنٹوں کسی علمی مسئلے پر بحث کرتے ہیں۔ جب بندہ مطمئن ہوجاتا ہے تب اپنی بات منقطع کرتے ہیں۔ محدود خوراک، کم دانت اور سیگریٹ کی عادت بھی ان کی صحت خراب کرنے کی وجہ ہے۔ حالاں کہ وہ دودھ کو خاندانی غذا سمجھتے ہیں۔ گھر میں بے تکلف کھانا کھاتے ہیں البتہ مہمان ہوجائے تو کھانا شاہانہ انداز میں تناول فرماتے ہیں اور اپنے مہمانوں کا خود تواضع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دعوت پر جانے سے پہلے گھر میں کچھ نہ کچھ کھانا ان کا معمول ہے۔ ہر خوراک کو اللہ کا نعمت تصور کرکے کھاتے ہیں۔ کھانے پینے میں احتیاط ضرور کرتے ہیں مگر شک سے خالی۔ جبھی تو سامنے پڑے خوراک میں کسی قسم کا نقص نہیں نکالتے۔ البتہ گوبھی اور بینگن سے ازلی رقابت ہے۔ پھلوں کے رسیاں ہیں۔ ہر قسم کے پھل کھاتے ہیں۔ بعض پھلوں کو کیلا سمجھ کر کھاتے ہیں۔ جب تک پھل کے جسم سے چھلکے کا لباس نہیں اتارتے تب تک انہیں چھین نہیں آتا۔
شاید چائے پینا شراب کی طرح حرام سمجھتا ہو یا اس بات کے ڈر سے کہ کہیں جنت میں چائے کی بینی بینی خوشبو سے محروم نہ ہوجائے، ورنہ ایسی نفرت نہ کرتے۔ البتہ مشروبات کو شوق سے پیتےہیں۔ خاص کر پیپسی تو اتنا مرغوب ہے کہ جب مطالبہ کرتے ہیں یا دوسروں کو پلاتے ہیں تو کہتے ہیں ”تورے اوبہ بہ سکو۔“ ٹھنڈا شربت جب پیتے ہیں تو ایک گھونٹ کے بعد دوسرے ہاتھ سے جبڑے دباتے ہیں اور جب زیادہ ٹھنڈا ہو تو پیشانی یا کھوپڑی پکڑنے کی نوبت آتی ہے۔
اس ساری صورت حال کا خلاصہ بزرگ ادیب اور شاعر روح الامین نایابؔ اپنے تاثرات میں کچھ یوں لکھتے ہیں: ”حکیم زئی صاحب جتنے بڑے محقق اور عالم فاضل شخصیت کے حامل ہیں اتنے اچھے انسان بھی ہیں۔ سادگی ان میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے۔ ان کا رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا سادگی کا ایک اعلا نمونہ ہے۔ ملنے ملانے میں کمال تعلق و محبت رکھتے ہیں۔ ان سے ایک بار ملنے سے برسوں کی شناسائی کا گمان ہوتا ہے۔“
حکیم زئی صاحب سنجیدہ مجالس میں علمی گفتگو توجہ سے سنتے ہیں۔ دوسروں کے رائے اور علمی براہین پر غور کرتے ہیں۔ اس وقت تک انہیں سنتے ہیں جب بولنے والا سب کچھ کہہ دیتا ہے اور ان کے پاس بولنے کےلیے کچھ نہیں رہتا۔ تب موصوف ان کے موقف کی تعریف کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان سے مخاطب ہوکر عامیانہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں : ”آپ بجا فرماتے ہیں، میں آپ کے دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں“ اور اگر اختلاف کا پہلوں نکالنا مقصود ہو اور اس کے تناظر میں کسی فکر کی وضاحت کرنا چاہے تو فرماتے ہیں : ”آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اس حوالے سے میرا خیال تھوڑا مختلف ہے۔“ یہ فرمانے کے بعد جب تمام جزیات کے ساتھ ترتیب وار بحث شروع کرتے ہیں تو آخر تک سب لوگ ان کو سنتے ہیں۔ اس ضمن میں مسئلہ سیاسی ہو یا مذہبی، ادبی ہو یا سماجی، تاریخی ہو یا جغرافیائی، فلسفے کا ہو یا تصوف کا، ہر میدان میں علم کا ایک چشمہ ہے جو رواں ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس کی مثال امجد علی سحابؔ کے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہیں:
”ان کی تاریخی حوالہ جات کی کیا کہیئے۔ جس سے ان کے غیر معمولی مطالعہ کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور اپنے سننے والے کو سیکھنے کی خاطر بہت کچھ دیتے ہیں۔“
عام اور بے تکلف مجالس میں گفتگو کا انداز بالکل بدل جاتا ہے۔ طنز و مزاح کے ذیادہ قائل ہیں۔ بڑے تو بڑے ہے چھوٹے بچے بھی ان سے مذاق کرتے رہتے ہیں۔ خود سنتے ہیں، دوسروں کو بھی سناتے ہیں۔ اس وقت کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ صاحب بھی بلند پایہ علمی کتابوں کے خالق ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت میں موصوف ایک درجن سے زائد کتب کا خالق ہے۔ جس کی وضاحت ساجد ابو تلتاند صاحب کے تاثرات میں کچھ یوں موجود ہے:
”1996ء ایک ادب خیز تاریخ کی رو سے وہ خوش بخت سال تھا جس میں علم و ادب کے چمن میں ڈاکٹر صاحب کے روپ میں ایک خوشبو دار اور سایہ دار درخت مل گیا۔ جن کی ادبی خوشبو اور تخلیقی رعنائیوں نے ایک درجن سے زائد کتب کی شکل میں شرف طباعت حاصل کی ہے۔“
طنز و مزاح کے بعد جب مجلس سنجیدہ ہوجاتی ہے تو فوراً متانت و سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ گویا ایک لمحہ پہلے جو مذاق ہورہا تھا وہ کوئی اور بندہ تھا اور یہ کوئی اور ہیں۔ بلا کا حافظہ پایا جاتا ہے برسوں پرانی بات ان کو یاد ہوتی ہے۔ اکثر کہتے ہیں یہ بات پہلے میں ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں۔ یقیناً جتنی بار کہا ہو تمام جزیات کے ساتھ ان کو یاد بھی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مقام اور محل وقوع بھی بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ انتہائی حاضر جواب شخصیت ہیں۔ ایک بار ایک اجنبی نے فون کیا اپنا نام فقیر بتایا تو آپ نے فوراً جواب دیتے ہوئے اپنا نام ملنگ ظاہر کیا۔ اس طرح ان کے ظرافت کے بے شمار کہانیاں موجود ہیں۔ آپ جذباتی ہیں نہ آپ کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن زلزلہ اور بچے کی بے ہوشی ان کے اوسان خطا کرتے ہیں۔ فطری محبت خاص کر ماں سے متعلق کچھ پڑھتے یا سنتے ہوئے جذباتی ہوتے ہیں۔ موضوع، موقع محل، حاضرین مجلس کی علمی سطح اور ان کے طبع مذاق دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ ہر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بہتر نتائج نکالتے ہیں۔
قارئین! یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران حکیم زئی صاحب میں سیاست کا جذبہ بیدار ہوا تھا اور یوں انہوں نے ”پختون سٹوڈنٹس ارگنائزیشن“ کی پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ اس وقت ان کے بڑے بھائی وکیل حکیم زئی صاحب مزدور کسان پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز تھے۔ 1999ء میں آپ کے بڑے بھائی وکیل حکیم زئی نے ایک قوم پرست ہونے کے ناتے”افغان نیشنل پارٹی“ تشکیل دے دی۔ اسی لیے موصوف نے مذکورہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے عملی سیاست میں کود پڑے۔ آپ نے 2002ء کے جنرل الیکشن میں صوبائی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا، لیکن ایم ایم اے کی ہوا چلنے کی وجہ سے آپ کو کامیابی نہ ملی۔ اسی طرح آپ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل درش خیلہ سے ناظم کی حیثیت سے میدان میں اترے لیکن کامیاب نہ ہوئے۔
قارئین! آپ سیاسی و ادبی اجتماعات اور الیکشن کمپئن میں ایسی پُرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کرتے کہ لوگ حیران ہوجاتے۔ اس قابلِ رشک کیفیت کو ساجد ابو تلتاند صاحب اپنی مضمون میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں : ”آپ کی برجستہ تحریر اور شستہ تقریر کو ہر جگہ پذیرائی حاصل ہے۔“ اس کے علاوہ حکیم زئی صاحب ایک بہترین محقق اور لکھاری ہیں جنہوں نے اب تک 13 کتب لکھے ہیں اور ان کےلیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ان کی تین تصانیف باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پشتو نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی تحقیقی کتابوں میں دہ اخون میاں داد دیوان، زیرے، دہ دوست محمد خان دوستی گنجتہ الگویری، میاں قاسم بابا، سرتورفقیر، دہ میاں حمداللہ فقیر خیل کلام اور سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات (اردو) شامل ہیں۔ جب کہ تخلیقی کتابوں میں دہ حق چغہ، پشتون ولی اور دہ پختون خوا لنڈہ مطالعہ شامل ہیں۔ اسی طرح موصوف نے افسانوں کی بھی دو کتابیں لکھی ہیں جن میں د ملالئی ٹپہ اور دہ مزے غوسول غواڑی شامل ہیں۔
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے شعبہ پشتو کے طالب علم آپ کے لیکچرز سے مستفید ہورہے ہیں۔ موجودہ رہائش حیات آباد پشاور میں رکھتے ہیں جہاں فارغ اوقات میں ادبی مجالس، ٹیلی ویژن انٹرویوز اور دوستوں سے ملنے جاتے ہیں۔ تخلیق و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن جب مناسب موصوع نہیں ملتا تو قلم اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ البتہ ادیبوں اور شعراء کی سرپرستی خوب کرتے ہیں اور ان کی کتب پر دیباچے اور تاثرات بھی قلم بند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیمیں آپ کو ادبی مجالس میں صدر اور مہمانِ خصوصی کے طور پر بلاتے ہیں۔ خاص کر “مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ” اور “سوات ادبی تڑون” کو موصوف کی سرپرستی کا شرف حاصل ہے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا آپ کو لمبی زندگی دے تاکہ آپ علم و ادب کے گلستان کی آبیاری اس طرح جاری رکھ سکیں، آمین!
________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 29 ستمبر 2019ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرف قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔