اپنی 23 ویں سالگرہ کی کیک کاٹتے ہوئے ایک دوست نے راقم سے پوچھا کہ آپ خوش  ہیں…؟ مَیں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان 23 سالوں میں، مَیں نے زندگی کے ہر پہلو کا ایک عمیق مطالعہ کیا۔ ہر چیز کو قریب سے دیکھا۔ رشتہ داری، دشمنی، محبت، جفا، ساتھ رہنے کی خوشی اور بچھڑنے کا غم سب کچھ دیکھا۔ اس کے علاوہ اس 23 سالہ زندگی کی رنگین بہاروں کے ساتھ غمگیں خزانوں کا سفر بھی طے کرتے ہوئے مَیں نے زندگی کی حقیقت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ ان گزرے ہوئے لمحات کا کچھ حصہ نذرِ قارئین کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
قارئین، ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے استاد کا جو درجہ اور عزت ہم دیکھتے تھے، ہمیں بھی شوق ہوتا کہ ہم بھی بڑے ہو کر فلاں استاد کی طرح بن جائیں گے۔ یوں اس معاشرے میں ہماری بڑی عزت ہوگی۔ لیکن جب مڈل تک پہنچے، تو اساتذہ سے نفرت اور حسد کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملا۔ جب میٹرک تک گئے، تو مکافاتِ عمل کے بارے میں سیکھا۔ ہمارے اساتذہ صاف صاف کہتے کہ اگر ہم ذاتیات پر اُتر آئے، تو ہمارے قہر سے تمہیں کون بچائے گا۔ یہ معرکہ سر کرتے ہوئے جب کالج میں داخل ہوئے، تو ڈھیر سارے اساتذہ سے زندگی کی حقیقیت سیکھی۔ یونی ورسٹی پہنچے، تو لیکچررز اور پروفیسرز صاحبان سے صنفی تعصب (Gender Discrimination) سیکھا کہ کس طر ح وہ صنفی امتیاز کی وجہ سے ایک طالبِ علم کو ذہنی بیمار کر دیتے ہیں۔
قارئین، ان 23 سالوں میں، مَیں نے دوستوں کو کئی روپ دھارتے ہوئے دیکھا۔ پیسا نہ ہونے کی وجہ سے قطع تعلق کرنا، میلے کپڑوں کی وجہ سے دعوت پر نا بُلانا، بات بات پر اوقات کی طعنے دینا۔ مَیں نے دوست کی روپ میں فرشتوں کو بھی دیکھا۔ جب آپ کسی تکلیف میں ہو اور دوست کو اپنے دل کا راز بتا کر اپنا دل ہلکا کرتے ہو، تو وہ آپ کے زخموں کا مرحم بن جاتا ہے۔
پہاڑوں پر جانا اور چیخیں مار مار کر اپنا دکھ کم کرنا۔ مَیں نے ان تئیس سالوں میں فرشتے بھی دیکھے۔ لوگوں کو بولنے کی حد تک مخلص  دیکھا۔ جب آپ کسی تکلیف میں ہو، تو موقع دیکھ کر آ پ کو چھوڑ جانا اور اپنے تکلیف میں خود برباد ہوجانا۔ رشتہ داروں کا آپ کی مال و دولت دیکھ کر آپ سے تعلق اور رشتہ جوڑنا اور خوشی میں خفا ہوکر چلے جانا، کسی بہانے آپ کے ساتھ قطع تعلق کرنا۔ غم میں آکر آپ کے زخموں پر مرہم کے بجائے نمک چھڑک کر چلے جانا۔
قارئین، ان تمام کے علاوہ مَیں نے ایک شے کو اپنے ساتھ مخلص پایا جس نے میری مال کی پرواہ کی نہ میرے شخصیت سے متاثر ہوا، بلکہ میرے اندرونی کیفیات اور لفظوں سے متاثر ہوکر میری زندگی میں آیا۔ ہاں وہ مخلص تھا، مگر میرے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کیوں کہ مَیں  غزل کی روٹی سے اپنی پیٹ کو پالتا تھا اور وہ شاید اس طرح ہونے کو ترجیح نہیں دیتا تھا۔ مگر وہ میری زندگی میں آنے میں مخلص تھا۔ چند خامیاں جو مَیں خامیاں مانتا ہی نہیں، ان خامیوں کی وجہ سے میں ہوشیار بنا۔ میرے خیال میں پختگی آئی اور یہ میرے ان تئیس سالوں میں محبت اور نفرت کا سفر تھا۔
یہاں سے مَیں نے زندگی ایک استاد کی حیثیت سے دیکھی۔ میرے اکثر شاگرد مجھ سے محبت کرتے، کیوں کہ مَیں نے ان کو یہ حق دیا تھا کہ میں آپ کو سیکھاتا ہوں۔ مَیں نے ان کو حقائق سکھاتے ہوئے ان کی زندگی سے نفرت کا نام مٹا دیا اور میں ان کو محض محبت پر آمادہ کیا۔ میرے وہ تمام شاگرد میرے شاگرد نہیں بلکہ میرے دوست تھے۔ مَیں نے ان کو یہ بھی سیکھایا کہ کسی انسان عزت کس طرح دی جاتی ہے۔
قارئین، ان تئیس سالوں میں، مَیں نے ڈھیر سارے ناخوش گوار حالات کا مقابلہ کیا۔ اپنی ذہنی جبلت کو برداشت کیا اور اگر زندگی کے ساتھ یہ سفر جاری رہا، تو اپنی چوبیس ویں سالگرہ پر نئے خیالات بھی آپ کے ساتھ شئیر کرنے کی گستاخی کروں گا، ان شاء اللہ۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: