پاکستان میں سیاست دانوں کو اکثر جیل ٹرائل (Jail Trail) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر سیاسی نوعیت کے مقدمات میں جیل ٹرائل کو انصاف کے مسلمہ تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کی صوبائی جیلوں کے قواعد پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان میں مخلتف مقدمات میں جیل کے اندر سماعت کی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔
قارئین، اس سلسلے میں تازہ ترین مقدمہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ہے۔ تاہم، پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہورہا کہ ایک سیاست دان کا ٹرائل جیل میں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو مختلف ادوار میں حکومتیں اپنے مخصوص مخالفین کا ٹرائل جیل میں ہی کرتی رہی ہیں۔
قارئین، 1950ء کی دہائی میں "پنڈی سازش کیس” میں سماعت جیل کے اندر ہی ہوئی تھی جب کہ 70ء کی دہائی میں "حیدر آباد سازش کیس” میں بھی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی جو سیاسی قائدین گرفتار کیے گئے تھے، ان کی خلاف بھی ٹرائل جیل کے اندر ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں، اس میں جہادی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تنظیموں کے کچھ کارکنان کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی ہے۔
قارئین، بعض ماہرینِ قانون کا ماننا ہے کہ جیل ٹرائل انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوتی ہے، جب حکومت من مانے فیصلے کرنا چاہتی ہے۔ سماعت کے دوران میں کیا کارروائی کی گئی، استغاثہ اور وکیل صفائی نے کیا دلائل پیش کیے اور جج نے کن بنیادوں پر فیصلہ دیا، جیل ٹرائل کا مقصد فوجی عدالتوں کی طرح ان تمام باتوں سے عوام کو بے خبر رکھنا ہے۔
تاہم، کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جیل میں سماعت سے مقدمے کی صحت پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا، کیوں کہ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ ہمیشہ دلیلوں اور شواہد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خیال میں جیل میں مقدمات کی سماعت کوئی انوکھی بات نہیں۔