یو خوا مجبوری دہ مزدورو می سرمن اویستہ
بل خوا چی بیمار شم نو ڈاکٹر می سرمن اوباسی
گیڈی لہ پیدا کڑم کہ دارو لہ پنگہ جمع کڑم
بل خوا دال الو او ٹماٹر می سرمن اوباسی
قارئین، ان اشعار کے خالق سے راقم کی چند سال پہلے اچانک ایک ملاقات ہوئی۔ موصوف ایک طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ سادگی، انسانیت اور شرافت میں اپنے مثال آپ اس شخصیت کا اصل نام محمد شاہ جب کہ تخلص روغانؔے ہیں۔
محمد شاہ روغانؔے پشتو زباں و ادب کے درخشاں ستارے اور بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانؔے بابا (مرحوم) کے چچا زاد بھائی ہیں۔ موصوف نے 1951ء میں وادئ سوات کے مشہور گاؤں کوزہ درش خیلہ سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل رحیم روغانؔے کے گھر جنم لیا۔ میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول درش خیلہ سے حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا جب کہ شاعری کا باقاعدہ آغاز 1974ء میں کیا۔ موصوف نے کئی کتب لکھیں، لیکن ان کے بقول کراچی سے سوات آتے ہوئے ضائع ہوئیں۔
اس بارے حبیب اللہ ہمدرد لکھتے ہیں: روغانؔے صاحب کا پہلا شعری مجموعہ”زبورِ افغان”ہے، لیکن اس سے پہلے انہوں نے تین کتابیں”سمندر”، “زبورِ سرحد” اور “اصحابِ عجم” لکھ چکے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے تینوں کتابیں ضائع ہوچکی ہیں۔”
کتابوں کے ضائع ہونے پر روغانؔے صاحب خود بھی رنجیدہ اور خفا ہیں، لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔
حل د دغہ ستونزو دی زما ضمیر کی نہ رازی
غم دے او بس غم دے خوشحالی تقدیر کی نہ رازی
ویر دے او بس بس ویر دے ھیس کمے پہ ویر کی نہ رازی
دور د گرانئی کہ د واپڈا ستم دی اوژاڑم
قارئین، محمد شاہ روغانؔے ایک اچھے شاعر ہونے کے کے ساتھ ایک بہترین خطاط اور نثرنگار بھی ہیں۔ موصوف “مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ” درش خیلہ کے نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ شاعری کے ہر صنف پر طبع آزمائی کر چکے ہیں، پر قطعہ پر خصوصی توجہ دی ہے:
زمونگ ژوندون پہ طریقہ د پیغمبر جوڑ کڑی
مونگ پہ دنیا کی سر بالا او معتبر جوڑ کڑی
چی نوے کال شی پہ نڑئی کے سر بالا یا رب
تیاری بدل د وطن کڑی پہ رنڑا یا رب
تیاری بدل د وطن کڑی پہ رنڑا یا رب
محمد شاہ روغانؔے کی شاعری میں رومانیت بھی پائی جاتی ہے جس نے ان کی شاعری کو مزید جلا بخشی ہے۔
نا آشنائی کی می آشنا تر سنگہ ناست وہ
د دیدن پہ وخت ئی زان تر منزہ ویست
پہ کم زوری تن می دومرہ لڑزان راغے
چی قرار می بی وصل دلبر دلبر نیست
روغانؔے بابا دل میں قوم کا درد سموئے ہوئے ہیں، اس لیے تو اپنی شاعری میں جگہ جگہ اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
د چا پختو د چا ایمان خرسیگی
زمونگ وطن کی سوچ او فکر د انسان خرسیگی
قارئین، محمد شاہ بابا کبھی کبھار اپنی شاعری میں کبھی پختون قوم پر، تو کبھی زباں پر اور کبھی کبھی مذہب والوں پر طنز کے نشتر چلاتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں، جیسے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
مخکی بہ امداد د رب د لوری زکہ راغے چی
ھغہ مسلمان وو صرف کعبی تہ پہ سجدہ
اوس بہ د اللہ امداد پہ کومو سترگو اوغواڑی
اوس خو مسلمان شو امریکی تہ پہ سجدہ
قارئین، محمد شاہ روغانؔے پشتون، پشتون ولی اور پشتو سے محبت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں جگہ جگہ اپنے قوم سے محبت اور پیار کا اظہار پایا جاتا ہے۔
زلمی پرواہ د ذولنو نہ کوی
بی ننگی خوند د پختو نہ کوی
ورشہ اغیار تہ پہ پختو اوایہ
نور دی ازمیخت پہ لیونو نہ کوی
غرض روغانؔے صاحب کے اشعار نہایت عمدہ اور خوب صورت ہیں۔ ان کی کتاب “زبور افغان” پڑھنے کی لائق شے ہے۔ کیوں کہ موصوف نے اپنے اشعار میں معاشرے کے اصلاح کی بھر پور کوشش کی ہے۔ تین سو بارہ (312) صفحات پر مشتمل یہ خوب صورت سرورق اور سفید نرم کاغذ کی حامل کتاب “مکتبہ رحمانیہ” محلہ جنگی قصہ خوانی پشاور سے شائع ہوچکی ہے۔ قاری اس کتاب میں غزلیات کے ساتھ ساتھ نظمیں، رباعیات اور قطعات سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ کتاب پر ڈاکٹر شیر محمد خان، محمد ابراہیم خان شبنم، ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے اور حبیب اللہ ہمدرد نے تبصرہ کیا ہے۔ جب کہ کتاب کا انتساب روغانؔے صاحب نے اپنے والدین کے نام سے کیا ہے۔
قارئین، محمد شاہ روغانؔے صاحب آج کل بیمار اور نظر کی خرابی نے گھر تک محدود ہیں۔ دعاگو ہو کہ ربِ تعالا ان کو اچھی صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائے، تاکہ گلستان ادب کی آب یاری جاری رکھ سکیں، آمین۔
جاتے جاتے روغانؔے صاحب کے ان اشعار پر پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
دَ یہودی او عیسائی د تعصب دلاسہ
شو دَ کابل او فلسطین مسلمان دڑی وڑی
سپیری سیلئی دَ خزان باد کڑہ دَ اسلام باغیچہ
پہ وچہ ڈاگہ کڑہ دَ ظلم طوفان دڑی وڑی
____________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی یکم فروری 2024ء بروزِ جمعرات کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔