ضلع سوات کی تحصیل بریکوٹ کے مقام پر ایک سڑک ضلع بونیر کی طرف مڑتی ہے، وہاں بائیں جانب ایک اور سڑک ایلم پہاڑ کی طرف مڑتی ہے جو پکی ہے اور اس پر ہر قسم کی گاڑی سٹوپہ تک باآسانی پہنچتی ہے۔
ایلم پہاڑی کے قدموں میں چاروں اطراف سے لہلہاتے کھیتوں، پھلوں کے باغات اور چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں بڑی شان سے کھڑا تیسری صدی عیسوی کا شان دار اور تاریخی “املوک درہ سٹوپہ” (Amlok Dara Stopa) واقع ہے۔ علاقے کے بڑے بوڑھوں کے بقول کسی زمانے میں املوک درہ میں بڑی مقدار میں املوک جسے اردو میں “جاپانی پھل” کہتے ہیں، کے باغات ہوا کرتے تھے، اس لیے اس پورے درے کا نام مذکورہ پھل “املوک” کی نسبت سے “املوک درہ” پڑ گیا۔ لیکن پروفیسر خواجہ عثمان علی کے مطابق “املوک درّہ” نام میں املوک سے مراد “جاپانی پھل” نہیں بلکہ چھوٹا “کالا املوک” ہے۔ جاپانی پھل تو یہاں پر ساٹھ کے دہائی میں متعارف کرایا گیا ہے۔
تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے بدھ مت دور کے اس عظیم سٹوپہ کو پہلی دفعہ سال 1926ء میں ہنگریئین ارکیولجسٹ (Hungarian Archeologist) سر اُورل سٹائن نے دریافت کیا تھا اور بعد میں 1960ء کی دہائی میں اطالوی (Italian) ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر فسینا نے مطالعہ کیا۔ پھر اٹلی حکومت کی مدد سے آرکیالوجی کلچر ٹوورازم (اے سی ٹی) پروجیکٹ کے تحت املوک درہ سٹوپہ کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کی، نتیجتاً سٹوپے کے متصل بدھ مت دور کا ایک کمپلیکس دریافت ہوا۔ اس کمپلیکس میں سیڑھیاں بڑی نفاست کے ساتھ نیچے اُترتی نظر آرہی ہے۔
فضل خالق کے بقول ڈاکٹر لوکا دعویٰ کرتے ہیں کہ “چینی زائر “ہیون سانگ” (جو ساتویں صدی عیسوی میں سوات کے علاقے سے گزر چکے ہیں) بھی املوک درہ سٹوپہ کا دورہ کرچکے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کے لکھے گئے سفرنامے کا ترجمہ کما حقہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اب پروفیسر “میکس ڈیگ” مذکورہ سفرنامے کا ترجمہ کر رہے ہیں، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔”
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔