قارئین، بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اپنی شہرۂ آفاق کتاب “زما جوند او جد و جہد” میں لکھتے ہیں کہ؛ جب ہم دیر کے علاقے میں داخل ہوئے، تو “خال” نامی گاؤں پہنچے، جہاں “اخوند زادگان” اور “پراچگان” آباد تھے۔ یہ دونوں قومیں روشن خیال ہونے ساتھ ساتھ اچھے لوگ بھی تھے۔ دونوں نقطۂ نظر میں قوم پرست اور دولت مند تھے۔ ان ہی کے تعاون سے ہم نے وہاں ایک آزاد مدرسہ قائم کیا اور ان سے کہا کہ اس کے انتظام کےلیے مخفی صاحب کی خدمات حاصل کریں۔
اس مدرسے نے بہت کم وقت میں خوب ترقی کی اور اس کے طلباء کی تعداد چار سو تک پہنچ گئی۔ لیکن اُس وقت ملاکنڈ کا پولیٹیکل ایجنٹ پختونوں کے سیاسی بیداری کا سخت مخالف تھا۔ اس نے نوابِ دیر کو بلوایا اور اسے بتایا کہ ان مدارس نے ان کےلیے جو مشکلات پیدا کی ہیں، وہ اپنے لیے ایسی مشکلات پیدا نہ کریں اور مذکورہ مدرسہ گرا دیں۔ نوابِ دیر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خال میں موجود آزاد مدرسے کو گرا کر اُسے آگ لگا دی۔
باچا خان بابا آگے لکھتے ہیں کہ جب ہم دیر پہنچے، تو شاہو بابا کے بیٹے کے پاس ٹھہرے جو حاجی فضل واحد (ترنگ زئی حاجی صاحب) کے مرید تھے۔ ایک رات صفدر خان نامی قاصد نواب صاحب کا پیغام لے کر دیر پہنچا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ ہم اگلی صبح اس کے پاس جائیں گے۔ لیکن نواب صاحب اسی رات ہمیں دیکھنا چاہتے تھے اس لیے میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ جب ہم پہنچے، تو نواب صاحب خود ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ بات چیت کے دوران میں اس نے مجھے بتایا کہ ان کے دل میں انگریزوں سے واقعی نفرت ہے اور مَیں جو چاہتا تھا وہ بھی ان کی خواہش تھی۔ لیکن وہ کیا کر سکتا تھا، کیوں کہ انہوں نے میاں گل صاحب کو سوات میں ان کی مخالفت کے لیے بٹھایا تھا۔ اگر ذرا سی حرکت بھی کی، تو والی صاحب کو ریاستِ دیر پر حملہ کرنے کےلیے اکسایا جائے گا۔ اس لیے اگر کل وہ میری کھلے عام مخالفت کرے، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اس کی حقیقی ہم دردی اور محبت میرے ساتھ ہوگی۔ اگلے دن جب لوگ جمع ہوئے اور نواب صاحب کے گھر کے قریب بات چیت ہوئی، تو بالاخانہ میں عبدالمتین خان اور تورکے خان تھے، جنہیں میں نے دور سے دیکھا اور سلام کا تبادلہ کیا۔ انہیں نوابِ دیر نے حراست میں لیا تھا۔ نواب کے گھر سے ہم رات کو براول بانڈہ چلے گئے۔ اس زمانے میں دیر کے نواب کے وارث یہاں رہتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو، لیکن نہ ہوسکی۔
__________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: