قارئین، چکدرہ کے دھمکوٹ پہاڑی پر واقع “چرچل پیکٹ” (Churchill Picket) کے اندر تختی پر وِنسٹن چرچل کے حوالے سے ایک عجیب و غریب تاریخ لکھی گئی ہے۔ جس کے مطابق چرچل نے جنگِ ملاکنڈ 1897ء میں جنرل جیفریز کی قیادت میں جنگ لڑی۔
قارئین، یہ تاریخ جس نے بھی لکھی ہے، مکمل غلط اور تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ چرچل جب جنگی نمائندہ نگار کی حیثیت ملاکنڈ پہنچے، تو اُس وقت جنگ اختتام پذیر ہوچکی تھی۔ نہ ہی چرچل کوئی فوجی تھے کہ لڑائی لڑنے آئے تھے، بلکہ “آلہ آباد پوائنیر” اور “لندن گزٹئیر” نامی اخبارات کےلیے ملاکنڈ ایجنسی کے حالات اور واقعات کو کہانیوں کی صورت میں لکھتے تھے۔ البتہ موصوف مہمند میں ہونے والی محاذ آرائی میں شامل رہے، جو مولانا نجم الدین المعروف “ہڈے مُلا” کے خلاف لڑی گئی تھی۔
دوسری جو غلط تاریخ اس تختی پر درج ہے وہ یہ کہ چرچل دھمکوٹ پہاڑی پر موجود پیکٹ پر تعینات رہے، جو کہ غلط ہے۔ کیوں کہ چرچل نے قلعۂ ملاکنڈ میں قیام کیا اور ملاکنڈ قلعے کے جس کمرے میں وہ مقیم رہے، وہ اب چرچل کے کمرے کے نام سے منسوب ہے۔ چرچل کا دھمکوٹ پہاڑی پر موجود پیکٹ میں قیام بارے تاریخ میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس پیکٹ پر ویر سنگھ کی کمان میں سولہ سپاہیوں نے جنگِ ملاکنڈ 1897ء میں ایک سخت وقت گزارا تھا جب قبائلی عوام نے ان کا گھیراؤ کیا۔
قارئین، اس تختی پر درج تاریخ کی تصحیح ہونی چاہیے۔ کیوں کہ چرچل اپنی لکھی ہوئی کتاب “دَ سٹوری آف ملاکنڈ فیلڈ فورس، چیپٹر نمبر VII، دَ گیٹ آف سوات” میں لکھتے ہیں کہ؛
“On the 5th of September, Sir Bindon Blood and his staff, which I (W.Churchill) had the pleasure to accompany, started from the Kotal Camp and proceeded across the plain of Khar to Chakdara. Here we halted for a night, ……… the march may be continued without delay next morning.”
ترجمہ، میں (چرچل) پہلی بار کوتل کیمپ ملاکنڈ سے قلعۂ چکدرہ 05 ستمبر 1897ء  کو پہنچا۔ قلعۂ چکدرہ میں رات گزاری اور اگلی صبح سیرئی کےلیے روانہ ہوا۔
یاد رہے کہ جنگِ ملاکنڈ  02 اگست 1897ء کو ہی ختم ہو چکا تھا۔
________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: