قارئین، دریائے پنجکوڑہ کو موسمِ سرما میں آسانی سے پار کیا جاسکتا ہے، لیکن گرمیوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کی وجہ سے یہ دریا پار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی تہہ بعض اوقات آدھی میل چوڑی ہوتی ہے۔ دریا کا پانی ندیوں  کی شکل میں چٹانی پتھروں کے درمیان بہتا ہے۔ جیسا اس سسپنشن پُل (Suspension Bridge) کے مقام پر یہ ایک تنگ چٹانی گھاٹی میں سے بہتا ہے۔ اکثر اس مقام پر سیلابی ریلہ 100 فٹ چوڑا ہوتا ہے۔
اس تاریخی پُل کے بارے میں انگریز فوجی “میجر ایلمر” (Major Almar) لکھتے ہیں کہ؛ “چترال ریلیف فورس” (Chitral Releif Force) عمرا خان جندولی کے خلاف جب 08 اپریل 1895ء کو گھڑ سوار دستے کے ساتھ “زولم” کے مقام پر پہنچا، تو یہ دریا پار کرنے کے قابل تھا۔ لیکن 11 اپریل کی دوپہر تک پانی کی سطح کافی بڑھ چکی تھی اور گھڑ سوار دستوں کے لیے اسے پھر عبور کرنا نامکمن تھا۔ پہلے یہاں سسپنشن پُل بنانا بالکل ناممکن تھا، کیوں کہ پُل کےلیے تار فی الحال نہیں پہنچا تھا۔ تاہم دریا کے کناروں پر بہت بڑی تعداد میں بڑے درخت پڑے تھے۔ ان میں سے بہت سے 2 فٹ قطر والے اور 20 فٹ لمبے تھے۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک تیرتا ہوا پل لاگ پیئرز کے ساتھ بنایا جائے۔
11 اپریل کی شام کو “فورتھ کمپنی، بنگال S&M” کے سیپرز نے سڑک پر دن بھر کی محنت کے بعد لکڑیاں اکٹھی کرکے پُل کی جگہ پر پہنچانا شروع کیا۔ تعمیراتی کام صبح ساڑھے 06 بجے شروع کیا گیا۔ 12 اپریل کو برطانوی اور مقامی پیادہ فوج کی ورکنگ پارٹیاں سڑک کے بیئررز،  گھروں کے دروازے اور تمام چھوٹی لکڑیاں “سدو” نامی گاؤں سے لے آئے۔ یہ گاؤں سائٹ سے کوئی دو میل کی مسافت پر واقع تھا۔ 23 ویں پاینرز کی دو کمپنیوں نے مزید بڑے لاگ جمع کرنے اور پُل بنانے میں مدد کی۔ سیپر تقریباً 130 جزوی طور پر لکڑیاں اکٹھا کرنے میں اور پُل بنانے میں مصروف تھے۔
ہر بیڑا چار سب سے بڑے لاگوں پر مشتمل تھا، 20 فٹ لمبا اور 18 انچ سے 24 انچ قطر یہ لکڑی کے کراس اور ترچھے ٹکڑوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ بڑے اسپائکس کو تار کی مدد سے بڑے لاگوں سے جکڑا گیا تھا۔ ان کراس ٹکڑوں پر تین ٹرانسم تھے جو تار سے مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے گئے تھے۔
These transoms were so placed that the road bearers  would not rest in The middle o The rafts. But several feet nearer the sterns, so as to raise The bows.
رافٹس کو 15 فٹ کے فاصلے پر  تاروں اور 3 انچ منیلا کیبلز کے ذریعے مضبوطی سے کھڑا کیا گیا اور اوپر کی چٹان میں لے جانے والی لکڑی کو لوہے کے جمپروں سے محفوظ کیا گیا۔ شام تک ایک کھردری سڑک (پُل) جو کہ ایک فائل میں پیادہ فوج کے آمدورفت کےلیے کارآمد تھی، اس پُل کا زیادہ حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ پانچ ٹمبرز تھے، جس پر دو روڈ بیئررز کو رکھا گیا تھا۔ 13 اپریل کو پھر اس کی مرمت جاری رہی اور ایک کاز وے بنانا بھی ضروری تھا۔ شام کو پہنچنے والی ایک پتلی تار کیبل کے ذریعے رافٹس کی کمانوں کو مزید بلند کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن رات کے وقت دریا کا بہاؤ غیر متوقع طور پر تقریباً تین فٹ بلند ہوا اور نیچے آنے والے کئی بڑے درخت پُل سے ٹکرا گئے۔ ایک لاگ نمبر کی کمان کے اوپر آگیا اور دو بیڑے مکمل طور پر ڈوب گئے۔
13 اپریل کی صبح پُل کی مرمت کی کوشش کی گئی۔ دو بیڑوں کو اتار دیا گیا اور اسے دوبارہ اپنی جگہ پر لانے کی کوشش کی گئی، لیکن پانی کا بہاؤ تقریباً دس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا تھا۔ آخر کار ایک تین انچ کیبل ٹوٹ گئی اور نمبر دو بیڑا ڈھیلا ہوکر ٹوٹ گیا اور آدھا میل نیچے ندی میں ڈوب ہوگیا۔ جب کہ پُل پر سوار چھ آدمی حیرت انگیز طور پر بچ گئے۔
Just after this no 3 Raft got into a bed way, and it was decided to give up the idea of a floating bridge  altogether. The plates give necessary detail of the bridge. It was intended only for mule transport.
ایک دن میں تین ہزار سے زائد آدمیوں نے پُل کو پار کیا۔ پیدل فوج کی ورکنگ پارٹیاں ہر روز لکڑی اور سٹور لے جانے میں مدد کرتی رہی۔
بحوالہ،
Professional paper of the corps of royal engineer by Mayne, Major C B.
___________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: