خان عبدالولی خان چوں کہ برِصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے سیاست سے ان کا تعلق بچپن ہی میں بنا۔ آپ بچپن میں اپنے والدِ بزرگ وار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے ساتھ جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے تھے۔ جب باچا خان کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا، تو آپ اپنے بڑے بھائی خان عبدالغنی خان اور ماسٹر عبدالکریم خان کے ساتھ ہر جگہ جاتے اور اپنے والد کی رہائی کی مہم کے سلسلے میں جلسے اور تقریریں کیا کرتے تھے۔ دسمبر 1929ء میں خدائی خدمت گار تحریک کے قیام کے بعد وہ کسی نہ کسی صورت میں اس تحریک سے وابستہ رہے اور اس طرح آپ کی سیاسی تربیت ہوتی رہی۔
خان عبدالولی خان نے اپنی باقاعدہ سیاست کا آغاز 1946ء
میں اپنے والد باچا خان کی خدائی خدمت گاروں کے جرنیل زیادتی کاکا کے کمان میں بحثیتِ ایک رضا کار بھرتی ہوکر کیا اور ان کا نام باقاعدہ خدائی خدمت گاروں کی فہرست میں لکھا گیا۔
اس کے بعد جب صوبہ بھر کے دوروں کےلیے کمیٹیاں بنائے گئے، تو خدائی خدمت گاروں کی سالار عظیم امین جان  نے ان کو فدا محمد خان اور ماسٹر عبدالکریم خان کے ساتھ ضلع کوہاٹ کی دورے پر بھیجا۔
کوہاٹ پہنچنے کے بعد ولی خان مزید ہدایت کےلیے کوہاٹ کے ضلعی سالار اسلم خان کے پاس گئے، جہاں ان کے ذمے تحصیل کرک دیا گیا۔ یہ دورہ پیدل تھا، گرمی کا موسم اور رمضان کا مہینہ تھا۔ ولی خان کی دونوں پاؤں جوتوں کے اندر سوج گئے اور پاؤں میں چھالے پڑ گئے جس کی وجہ سے ننگے پاؤں چلنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری اور قوم کے خاطر کس بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے “ہندوستان چھوڑ دو” کے سول نافرمانی کی تحریک میں اپنے والد باچا خان اور دوسرے خدائی خدمت گاروں کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔
خان عبدالولی خان کی زندگی اور جدوجہد سے اقتباس
شیئرکریں: