روس کے بادشاہ ایون (Ivon) نے اپنے لیے “زارؔ” کا لقب استعمال کیا، جو بعد میں آنے والے تمام روسی بادشاہوں کےلیے مشہور ہوا۔ ایون کی دورِ حکم رانی 1533ء سے 1584ء تک تھا۔ اس خاندان کا 22 واں اور آخری زار “اومانوف نکولس ثانی” تھا، جو 6 مئی 1868ء کو پیدا ہوا۔ الیگزینڈر ثالث اُس کا باپ اور میری فیوڈرونا اُس کی ماں کا نام تھا۔ زارؔ خاندان تین سو سال سے روس کا مطلق العنان حاکم تھا۔ روس کا رقبہ دو کروڑ 44 لاکھ اور دو ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی ساڑھے پچیس کروڑ تھی۔ جس میں روسی، جرمن، اٹالین، ترک اور لاطینی قومیں شامل تھیں۔
قارئین، زارؔ بھی فرعون کی طرح اپنی حکومت کو ازلی و ابدی سمجھتا تھا۔ چنانچہ 1890ء میں جب نکولس ثانی کی تاج پوشی ہوئی، تو اُس نے تکبر سے اعلان کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ اُس کی شادی برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی نواسی الیگزینڈرا سے ہوئی۔ الیگزینڈرا کی والدہ شہزادی ایلس ایک جرمن شہزادے سے بیاہ گئی تھی۔ اس طرح زارؔ انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم کی پھوپھی زاد بہن کا شوہر تھا۔ زارؔ عیسائیوں کا روحانی پیشوا بھی کہلاتا تھا۔
3 جنوری 1905ء کو سینٹ پیٹرز برگ کے شہر میں مزدوروں نے ایک عام ہڑتال کی اور 9 جنوری کو جلوس نکالا اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر فریاد کی۔ جب یہ جلوس زارؔ کے محل کے سامنے پہنچا، تو زارؔ کے حکم پر جلوس پر گولیاں چلائی گئی جس سے ایک ہزار سے زائد مزدور مارے گئے اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اُن کے لیڈران جیل میں ڈال دیے گئے۔ شہر کی گلیاں مزدوروں کے خون سے بھر گئیں۔ اس پر سارے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جس کے نتیجہ میں زارؔ کو کچھ مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اسی سال روس کو جاپان کے ہاتھوں ذلّت آمیز شکست ہوئی اور اسی سال زارؔ کی حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ زارؔ نے تحریک چلانے والوں پر مظالم کی انتہا کردی لیکن اس سے تحریک میں زیادہ قوّت پیدا ہوتی چلی گئی۔ آخر انتہائی سختی سے یہ تحریک بظاہر کچل دی گئی۔
1914ء میں جب روس جنگ عظیم اوّل میں کودا، تو جرمنی نے روس کو پے در پے شکستیں دیں جس سے روسی فوج کا حوصلہ پست ہوگیا۔ اس پر 1915ء کے آخر میں زارؔ نے روسی فوج کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے لی جس سے فوج پر اچھا اثر پڑا لیکن زارؔ کی غیر حاضری میں گورنروں کی غلطیوں سے لوگوں کا جوش بھڑک اٹھا اور فساد رونما ہوگیا۔ زارؔ نے گورنر کو سختی کرنے کا حکم دیا لیکن اس کا نتیجہ برعکس نکلا۔ اس پر زارؔ نے گورنر تبدیل کیا لیکن حالات بہتر نہ ہوئے۔ چنانچہ زارؔ واپس دارالحکومت کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی راستے میں ہی تھا کہ اُسے بغاوت کی اطلاع ملی جس میں بلوائیوں نے حکومتی دفاتر پر قبضہ کرکے عوامی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔
یہ واقعہ 12 مارچ 1917ء کو رونما ہوا۔ 15 مارچ کو زارؔ نے تخت سے دست برداری کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ؛ ’”مجھے جہاں بھی چاہو بھیجو، وہاں جانے کےلیے تیار ہوں اور ہر ایک فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔”
21 مارچ کو زارؔ اپنے محل میں واپس پہنچ گیا۔ شاہی خاندان اگست تک وہی مقیم رہا اور پھر عارضی حکومت کے فیصلے کے مطابق 13 اگست کو شاہی خاندان کو محل سے دُور، دارالحکومت سے باہر منتقل کردیا گیا۔
اپریل 1918ء میں زار کو ایک قصبہ اکٹیرن کے دو کمروں کے بوسیدہ مکان میں منتقل کردیا گیا جہاں اُسے دن میں دو مرتبہ سیاہ آٹے کی روٹی اور سبزیوں کا شوربہ دیا جاتا۔ پھر زارؔ کے افراد خانہ کی ایذادہی کا آغاز ہوا۔ اُس کے بیٹے کو زدوکوب کیا جاتا اور بیٹیوں کی جبراً عصمت دری کی جاتی اور یہ سب کچھ دیکھنے پر زارینہ کو مجبور کیا جاتا۔ یہ سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہا یہاں تک کہ 4 جولائی 1918ء کو شاہی خاندان کے قتل کا فیصلہ کرکے یوروسکی نامی شخص کو اس کام پر مامور کیا گیا۔
یوروسکی نے 16جولائی کی رات شاہی خاندان کو اُن کے ڈاکٹر اور دو نوکروں سمیت تہہ خانہ میں لے جاکر قتل کیا۔ اُن کے ہیرے جواہرات اُن سے علاحدہ کیے اور ساری لاشیں ایک گاڑی میں رکھ کر جنگل میں لے گیا جہاں اُن کے ٹکڑے کرکے انہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا۔ جو حصے جلنے سے رہ گئے اُن کو سلفیورک ایسڈ سے جلایا گیا۔ تین دن تک قاتل اس کام میں لگے رہے۔ پھر راکھ کو دوسرے مقامات پر لے جاکر بکھیر دیا گیا۔
بحوالہ؛ Execution of the Romanov family
____________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔