آسٹریلیا (Australia) کے انتہائی جنوبی شہر ایڈیلیڈ (Adelaide) سے آخری شمالی شہر ڈارون (Darwin) تک پھیلی 2979ء کلو میٹر ریلوے لائن “غان ایکسپریس” (Ghan Express) کے نام سے مشہور ہے۔ ہر آسٹریلین کا یہ خواب ہے کہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ اس ٹرین پر ضرور سفر کرے۔
قارئین، آسٹریلیا ایک وسیع و عریض براعظم (Subcontinent) ہے، جس کی آبادی کی اکثریت جنوب مشرقی علاقوں میں آباد ہے۔ شمال مغربی آسٹریلیا کے غیر آباد ہونے کی بڑی وجہ مواصلات اور نقل و حمل کا فقدان تھا۔ جب وسطی آسٹریلیا سے سونا، دھات اور دیگر قیمتی معدنیات کے خزانے دریافت ہوئے، تو ان علاقوں تک رسائی بہت مشکل تھی۔ چنانچہ حکومت کو جنوب سے شمال تک رسائی کےلیے ایک طویل ریلوے ٹریک (Railway Track) بچھانے کا خیال آیا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس انتہائی گرم اور صحرائی علاقے میں ریلوے ٹریک بچھانے کا سامان کیسے پہنچایا جائے؟
ابتداء میں اس کام کےلیے گھوڑے استعمال کیے گئے مگر صحرائی ریت میں ان کےلیے سفر کرنا مشکل تھا، دوسرا انہیں روزانہ چارے اور پانی کی اشد ضرورت ہوتی، جو صحرا میں ناپید تھیں۔
قارئین، یورپی لوگ مسلم ممالک کے لوگوں کو صحراؤں میں اونٹوں پر سفر کرتے دیکھ چکے تھے۔ کیوں کہ چپٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اونٹ ریت میں با آسانی اور طویل سفر کر سکتا ہے۔ ایک وقت میں 140 لیٹر پانی پی لینے سے اسے کئی دن تک پانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس مقصد کےلیے انیسویں صدی میں ہندوستان سے اونٹ بھی منگوائے گئے۔ مگر یورپ کے لوگوں کو اونٹ پالنے اور سنبھالنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے وہ بیمار ہو کر مر جاتے۔ یوں ہندوستان سے گھوڑے برآمد کرنے والے جارج جیمز لینڈلز (George James Landells) کو اونٹ اور شتربان (Cameleer) لانے کی ذمے داری سونپ دی گئی۔
9 جون 1860ء کو تین افغان باشندے اور چوبیس اونٹ میلبورن (Melbourne) کی بندرگاہ پہنچائیں گئیں۔ 1920ء تک 20 ہزار اونٹ اور تین ہزار افغانی باشندے آسٹریلیا لائے گئے۔ ہر 8 اونٹوں پر ایک افغان شتربان ہوتا تھا۔ ان شتربانوں میں بلوچی، سندھی اور ایرانی بھی شامل تھے، مگر افغانوں کی اکثریت کی وجہ سے سب لوگ افغان ہی کہلائے، جو بیوی اور بچوں کے بغیر خصوصی پرمٹ پر لایا جاتا تھا۔
قارئین، کیمل ٹرین (Camel Train) سے وسطی آسٹریلیا تک پانی کے ڈرم، خوراک، ڈاک، تجارتی اور تعمیراتی سامان لایا جاتا اور وہاں سے سونا اور اون وغیرہ ساحلی شہروں تک لایا جاتا تھا۔ ان ہی افغان شتربانوں نے ایڈیلیڈ سے ڈارون تک ریلوے ٹریک اور ٹیلی گراف (Telegraph) کی لائنیں بچھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ افغان نہ ہوتے، تو آسٹریلیا اپنی موجودہ ترقی سے ایک سو سال پیچھے ہوتا۔ 14اگست 1929ء کو پہلی ٹرین ایڈیلیڈ سے ڈارون کے لیے روانہ ہوئی جو دو دن بعد ڈارون پہنچی، جس میں کل 100 مسافر سوا ر تھے۔ افغان شتربانوں کے بغیر یہ ریلوے ٹریک کبھی نہ بنتا اس لیے اس ٹرین اور ریلوے ٹریک کو ان کی یاد میں پہلے “افغان ایکسپریس” کا نام دیا گیا جسے بعد میں “غان ایکسپریس” (Ghan Express) کہا جانے لگا۔
زیادہ تر افغان جنوبی آسٹریلیا میں آباد ہوئے جسے آج بھی لٹل ایشیا (Little Asia) کہا جاتا ہے۔ اونٹوں کے لیے چوکیاں بنائی گئیں جنہیں “کاروان سرائے” کہا جاتا تھا۔ ماڑی اونٹوں کی تجارت کا اہم مرکز تھا۔
قارئین، ان افغانیوں کو اپنی بیویاں ساتھ آسٹریلیا لے جانے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انہوں نے کئی مقامی سفید فام عورتوں سے شادیاں کیں۔ کچھ تو ان کے ساتھ حج کرنے بھی گئیں۔
1873ء میں ایک افغانی صالح محمد نے شمالی آسٹریلیا دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ نیو ساؤتھ ویلز (South Wales) میں فضل احمد، فیض محمد اور عبدالواحد کے نام خاصے معروف ہیں۔ عبدالواحد نے ایک سفید فام عورت ایمیلی اوزاڈیل سے شادی کی تھی جس سے اس کے 7 بچے ہوئے تھے۔ عبدالواحد یورپی لباس پہنتا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو اعلا تعلیم بھی دلوائی ۔لیکن 1920ء میں جب پیٹرول گاڑیاں آنے اور سڑکیں بننے سے اونٹوں کا استعمال کم ہوتا گیا، تو عبدالواحد سب کچھ چھوڑ کر واپس افغانستان چلے گئے۔
قارئین، سب سے پہلی مسجد 1861ء میں ”ماڑی” میں بنائی گئی تھی جو آج بھی قایم ہے۔1957ء تک پگڑی والے افغان اس مسجد میں دیکھے گئے۔ ایک کی عمر اس وقت 117 سال تھی۔ “سنٹرل ایڈیلیڈ مسجد” 1889ء میں بنائی گئی۔ ملا عبداللہ کی بیوی فرانسیسی تھی۔ بعد میں وہ ایڈیلیڈ مسجد کا امام بن گیا جب کہ 1905ء میں حسن موسیٰ خان نے پرتھ (Perth) میں پہلی مسجد تعمیر کی تھی۔ حاجی مولا مہربان قندھاری نے بھی ایک سفید فام عورت سے شادی کر رکھی تھی وہ آسٹریلیا کے پہلے مسلمان روحانی پیشوا تھے۔ معروف افغان درویش بیجا کو فوجی خدمات سرانجام دینے پر آسٹریلیا کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ دوست محمد آف غزنی بھی فوجی تھا۔ محمد عالم ایک حکیم اور انسان دوست شخصیت تھے اور ایڈیلیڈ میں “ونڈر مین” (Wonder Man) کے نام سے مشہور تھے۔ غلام عبداللہ رند نے 1917ء میں ایک مقامی عورت سے شادی کی۔ جس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم مارٹن رکھ لیا تھا۔ اس کے پوتے اور پڑ پوتے آج بھی آسٹریلیا میں آباد ہیں۔ صبا رند اس کی چوتھی نسل ہے۔
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: