پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں اس قدر اُتار چڑھاؤ ہے کہ جب اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، تو انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کو ئی قوم 75 برسوں میں بار بار اس طرح کی آئینی اور قانونی موشگافیوں سے بھی گزر سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہونا ممکن ہے۔ اس سفر میں ایسے ایسے موڑ آئے کہ عقل چکرا جاتی ہے ۔ اس دوران بعض ایسے معروف عدالتی فیصلے آئے جن کے بارے میں آج تک منفی آرا کا پلڑا بھاری ہے۔ اسی طرح بعض ایسے فیصلے بھی دیے گئے جن کی آج تک تعریف کی جاتی ہے۔ ایسے میں بعض منصفین کی جرات اور عظمت کو آج تک داد مل رہی ہے اور بعض کو آج بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا۔
قارئین، زیرِ تحریر مضمون میں ہم ایک اہم اور متنازع کیس کا ذکر کرنے جارہے ہیں۔ جس کو پاکستان کی سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ میں یوسف پٹیل کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
قارئین، اس مقدمے کی جڑیں بھی “مولوی تمیز الدین خان کیس” میں پیوست تھیں۔ فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ) نے “نظریۂ ضرورت” کی بنیاد پر مولوی تمیز الدین خان کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کے 46 قو انین بھی کالعدم ہو گئے۔ اس وجہ سے کارِ ریاست کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کےلیے گورنر جنرل غلام محمد نے اس فیصلے کے چھ روز بعد ہنگامی اختیارات کے حصول کےلیے ایک آرڈی نینس (Ordinance) جاری کیا۔ غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نام زد افراد کا ایک کنونشن منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔ اس آرڈی نینس کے ذریعے گورنر جنرل نے جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت کے سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو “ون یونٹ” (One Unit) میں تبدیل کرنے اور آئین سازی کے ضمن میں گورنر جنرل کو تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا تھا۔
غلام محمد نے اپنے نام زد افراد کا کنونشن منعقد کر کے خود ساختہ آئین پیش کرنے کے لیے فیڈرل کورٹ میں ریفرنس دایر کیا۔ دوسری جانب ان اختیارات کو ایک شہری نے وفاقی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے بہت سے قوانین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی۔ گورنر جنرل نے آرڈی نینس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات کے تحت ان قوانین کی توثیق کر دی تھی۔ اس فیصلے کے ذریعے یہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جاتی۔ تاہم عدالت نے گورنر جنرل کو نام زد افراد کے کنونشن کے ذریعے آئین سازی کی اجازت نہیں دی تھی۔ ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعے اگرچہ گورنر جنرل کو صد فی صد کام یابی حاصل نہیں ہوئی تھی، لیکن ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔
اب اکثر پاکستانی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ جسٹس منیر اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے، تو فیصلہ مختلف ہوتا۔ لیکن آئینی ماہرین اور مورخین کے مطابق ان کے پیشِ نظر دیگر مقاصد تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ممکنہ فیصلے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے جواز گھڑنے شروع کر دیے۔ جسٹس منیر کے مطابق، انہوں نے واپس مڑنے یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک و قوم کے لیے ادا کرنے کی غرض سے خندق پر ایک پُل تعمیر کر دیا۔ تاریخ نے اسی پل کو “نظریۂ ضرورت” کا نام دیا جس نے اسی زمانے میں ملک کو ایک پے چیدہ بحران میں مبتلا کر دیا تھا اور بعد میں تو اس نے وہ تباہی مچائی کہ الامان الحفیظ۔
_______________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: