ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں
دراز قد، توانا جسم، بھاری بھر کم آواز، اُبھرا ہوا سینہ، ہنس مکھ، خوب صورت آنکھیں پر نظر کم زور، ہر چیز کو ٹٹولتی ہوئی نظر، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، چال میں کمال، مزاج میں جلال اور آواز میں جلال و جمال دونوں، غرض ان تمام خوبیوں اور باکمال شخصیت کے مالک میرا راہبر و راہ نما ڈاکٹر سید زبیر شاہ صاحب ہی ہیں۔
موصوف خیبر پختون خوا کے افسانوی میدان میں اپنا ایک منفرد مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ جنم روشنیوں کی شہر کراچی میں ہوئی۔ آٹھویں جماعت تک تعلیم آبائی علاقے صوابی سے حاصل کی۔ پھر پاکستان کے سوئٹزر لینڈ یعنی وادئ سوات کا رُخ کیا جو راقم کا جنم بھومی اور آبائی علاقہ ہے۔ یہاں کے ایک نجی تعلیمی ادارے “روبیکان سکول اینڈ کالج” سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ جب کہ انٹر میڈی ایٹ اور B.A اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور سے کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔ وہاں اورینٹل کالج سے ایم اے (اُردو) کی ڈگری حاصل کی۔ لاہور میں آپ کا سسرال بھی ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب نے قرطبہ یونی ورسٹی پشاور سے ایم فل جب کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری پشاور یونی ورسٹی سے ڈاکٹر سلمان علی صاحب کی نگرانی میں کی۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنا بہترین شاگردوں میں سے ایک گردانتے ہیں۔
قارئین، سید زبیر شاہ صاحب ایڈورڈ کالج پشاور اور قرطبہ یونی ورسٹی پشاور میں طلبہ وطالبات کی ذہنی آبیاری کرتے ہوئے ان کو اپنے علم کی روشنی سے منور کرتے رہے۔ موصوف سے میری پہلی ملاقات قرطبہ یونی ورسٹی ہی میں ہوئی تھی ۔ڈاکٹر صاحب آج کل گورنمنٹ سپرئیر سائنس کالج پشاور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور اپنے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
موصوف ایک اچھے شاعر، ڈرامہ نگار اور نثر نگار بھی ہیں۔ لیکن ادبی دنیا میں ایک افسانہ نگار ہی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دو افسانوی مجموعے “خوف کے کتبے” اور “یخ بستہ دہلیز” تادمِ تحریر منظرِ عام پر آچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب قرطبہ یونی ورسٹی میں ہمیں پڑھاتے بلکہ بعض اوقات ہم سے بعض موضوعات بھی پڑھواتے۔ آپ ہماری حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی رموز و اوقاف سے آشنا بھی کراتے۔ ان کی لیکچر صرف کورس تک محدود نہ ہوتی اور نہ صرف کمرہ جمات میں پڑھانے کے قایل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کھبی کلاس لائیبریری یا کینٹین میں بھی لیتے۔ دورانِ لیکچر چائے اور بسکٹ سے بھی لطف اندوز ہوتے جس کا بل عموماً ڈاکٹر صاحب خود ہی ادا کرتے۔جب ہم گھر پر ملنے جاتے، تو بڑے خندا پیشانی سے ملتے اور بہترین مہمان نوازی فرماتے۔ خود بھی اچھا کھاتے ہیں اور مہمانوں کو بھی اچھا کھلاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ پیار، محبت اور خلوص دیکھ کر راقم نے ان کے سرپرستی میں پی ایچ ڈی تحقیقی مقالہ لکھنے کا ارادہ کرلیا۔ آپ نے موضوع کی تلاش میں میری راہ نمائی کے ساتھ خاکہ بنانے میں بھی بھر پور مدد کی۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی کتابوں کی فراہمی میں بھی میرا بھر پور ساتھ دیا۔ تحقیق کے مشکل سفر میں جہاں بھی مشکل پیش آتی یا حوصلہ پست ہو جاتا، تو ڈاکٹر صاحب مکمل تعاون، حوصلہ اور بھر پور مددکرتے۔ کبھی کبھار ہلکی پھلکی ڈانٹ بھی پلا دیتے۔
ہر اِک شکست دے گی تجھے حوصلہ نیا
ممکن نہیں ہے جیت کوئی ہار کے بغیر
ڈاکٹر زبیر شاہ صاحب ایک محبوب استاد، مشفق نگران اور پیار کرنے والے ساتھی ہیں۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً تعلیم سے رغبت، محبت اور ڈٹ کر محنت کا درس دیا۔ ان کے مطابق زندگی میں سب کچھ ممکن ہے پر محنت شرط ہے۔ کہا کرتے ہیں کہ کچھ پانے کےلیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ کیوں کہ اہم مقاصد کے حصول کےلیے محبوب کو مشغلوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
غرض زبیر شاہ صاحب ایک بہترین استاد ہونے کے ساتھ ایک اچھے اور کھرے انسان ہیں۔ ایسے لوگ ہی ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کی تمام غیر معمولی کوششوں اور تعاون کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ کیوں کہ ان ہی کی بدولت بندہ نا چیز کے نام سے لفظ “ڈاکٹر” کا سابقہ لگا۔ ربِ تعالا سے دست بہ دعا ہوں کہ ان کو خوشیوں بھری، لمبی اور صحت مند زندگی عطا فرمائے، آمین۔
جاتے جاتے میر تقی میر کے اس شعر پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ؛
شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
_______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔