زما گل گل رنگ بہ اشنا درپسی نہ زیڑیدہ
کہ خنداگانی دی شاہدہ جادوگری نہ وے
اے د قام دزڑہ درمانہ اے زما د خاوری زوانہ
دا وطن پہ تا جوڑیگی تہ خبر نہ ئی لہ زانہ
ستواں ناک، کسرتی جسم، استری شدہ کپڑے، کپڑوں پر چمک اور چہرے پر دمک، پیار لٹاتی نشیلی آنکھیں اور قاتلانہ مسکراہٹ والی بلاشبہ قدرت کا شاہکار، ابھرا ہوا سینہ، میانہ قد، آنکھوں پر نظر کا چشمہ چڑھائے، گول مٹول چہرہ اور داڑھی چٹ، یہ ہے احسان اللہ شاہد جو گاؤں خوازہ خیلہ میں غلام سرور خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ پیشے کے لحاظ سے تو معلم ہے لیکن پشتو زباں و ادب کے خدمت میں دل و جان سے مگن ہیں۔ تادمِ تحریر ان کا ایک ہی شعری مجموعہ “ژوندی خیالونہ” کے نام سے منظرِ عام پر آچکی ہے۔
کہ ہر سو چار چاپیرہ د نفرت تیری خوری دی
خو مونگ ھم بلی کڑی محبت لرہ ڈیوی دی
احسان اللہ شاہد صاحب کو میں جانتانہ پہچانتا تھا پر ملاقات میرے بھائی جیسے دوست امین الحق صاحب کے ذریعے ہوئی۔ انہوں نے ترنت محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کتاب تحفتاً دی اور ہم نے فوراً عوام کی عدالت میں پیش کی۔ صرف پڑھنے کےلیے نہ کہ مواخذے کےلیے!
قارئین، شاہد صاحب ایک عمدہ اور اعلا پائے کے شاعر ہیں۔ آپ ایک بلند فکر، درویش صفت اور صاحب حال انسان ہے جنہوں نے کتاب لکھ کر کمال دکھایا۔
شاہد باندی بیا ہم گران ئی انسان ئی محترمہ
پہ تاکی چی د شرمخ عادتونہ دی جو وی دی
ڈاکٹر دیدار یوسف زئی برملا ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب رقمِ طراز ہیں؛ میں کسی کی تعریف نہیں کرتا بس صرف اتنا کہوں گا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھ لیں، ہر شعر سے آپ کو مزہ اور بھر پور حوصلہ ملے گا۔”
ذھنونو کی د چا نفرتونہ وی جووی دی
چی وچ پہ وچہ وران د چا نیتونہ وی جو وی دی
قارئین، احسان اللہ شاھد کی شاعری با مقصد ہیں کیوں کہ اس میں معاشرے کو سبق دیا گیا ہے۔
د جھالت انتہا نہ دہ دی تہ سہ وائی نور
د رواجونو پہ سر یو بل تہ پیغور دے زمونگ
شاھد صاحب عشقِ الہٰی سے بھی سرشار ہیں۔
تہ رحیم ئی تہ کریم ئی تہ قہار ئی
تہ شکور ئی تہ غفور ئی تہ جبار ئی
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
ڈوبہ پہ تیرو د جھالت کی چی دنیا شوہ
پاک نبی امداد وکڑو پہ ھر لوری رنڑا شوہ
شاھد صاحب آج کل کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہوئے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر دیکھتے ہیں۔ تب ہی تو لکھتے ہیں:
لکہ شاھد غوندی د دوئی لاسو کی ورکڑہ کتاب
د قام بچو لہ چی تہ بنگ ورکوی سنگ ورکوی
شاھد صاحب معاشرے کے بعض عناصر پر طنز کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ در حقیقت ان کا مقصد معاشرے کا اصلاح ہے۔
شاھدہ دغہ سڑے زکہ پہ ہر چا خہ لگی
چی کوم دفتر تہ زی د زان سرہ ڈالئی ساتی
اور یہ کہ؛
ھیس مفادات مو شریک نہ شتہ بیخی وچ پہ وچہ
نفرت کوو ھسی د یو بل نہ زڑہ تور دے زمونگ
آج کل کے رسم و رواج پر کچھ یوں طنز کرتے ہیں:
شاھدہ زہ چی د دی دور رواجونہ وینم
ژوند زما ھرہ ورز یو نوی امتحان تہ رسی
قارئین، گاؤں کے مقابلے میں شہر کی زندگی انتہائی مصروف ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا ہے۔ اس بارے شاھد صاحب یوں لکھتےہیں:
ھلتہ کی خو ھر سڑے پہ منڈہ دے
شکر دے چی ژوند زما د خار نہ دے
شاھد خود ایک استاد ہے اس لیے استاد کی قدر کرنا بھی جانتے ہیں۔
ستا پوھی ستا برداشت او ستا ھنر تہ زما پام دے
استاذہ محترمہ ستا عظمت تہ مے سلام دے
والدین کےحقوق جانتے ہیں تبھی تو ان کو عزت بھی دیتے ہیں۔
دعاگانی ئی غوختلی
چی رنڑا زما د کور وا
دا عظیمہ زما مور وا
زما ٹول کور پری ودان دے
شاھد کی شاعری میں نہ صرف طنز کے نشتر چلتے ہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ بھی کرتے ہیں۔
جزیرہ د نفرتونو کی پیغام د محبت شہ
پہ ھر لور باندی رنڑا شہ او د امن ضمانت شہ
شاھد صاحب کی شاعری میں رومانیت بھی ہے۔ آپ خوب صورت ہیں اور ایک خوب صورت دل بھی رکھتے ہیں۔
ستا د سرو شونڈو دشرابو عجیبہ نشہ وا
شاھدہ بیا پہ ٹولہ لارہ زنگیدمہ تلمہ
اور یہ کہ،
چی سڑے زوان شی محبت نہ کوی سہ بہ کوی
نخری مستی او شرارت نہ کوی سہ بہ کوی
غرض احسان صاحب کی کتاب میں ہرطبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مواد موجود ہیں۔
دسپینو واورو پہ شان سپینو خلقو
ستاسو د زڑونہ دومرہ تور ولی دی
زڑونہ مو سپین کڑئی د شکلونو پہ شان
خلق نیولی مو پہ اور ولی دی
بہترین گیٹ اَپ والی 224 صفحات کی اس مجلد کتاب کے اندر جھانکا جائے، تو پہلی ہی نظر میں کتاب جاذبیت کی موجب بنتی ہے۔ کتاب کا انتساب انہوں نے قریبی رشتوں جیسے والدین، بھائی، بہنوں، شریکِ حیات اور اولاد کی نام کی ہے۔
کتاب پر موصوف کے والدِ بزرگ وار غلام سرور خان، فیض الوہاب فیض، ڈاکٹر دیدار یوسف زئی صاحب اور رضوان اللہ شمال جیسے شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
قارئین، “گران خپرندویہ ٹولنہ سوات” کا شایع کردہ یہ کتاب محض 400 روپے کے عوض پر ہر اچھے بُک سٹال سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اہلِ ذوق پڑھ کر لطف اندوز ہو۔ اس کارِ خیر کے لیے شاھد صاحب داد اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
آخر میں احسان اللہ شاھد صاحب کی ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا۔
ژوند دی وی قلم دی وی کتاب دی وی رنڑا دی وی
خدایہ د دی قام بچی د دی خاوری خکلا دی وی
خاد دی وی آباد دی وی د ھر غم نہ آزاد دی وی
مینہ دی د مور او پہ سر سیورے د بابا دی وی
________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: