1953ء کا سال تحصیلِ مٹہ کے مشہور گاؤں گورڑہ کےلیے خوش بخت ثابت ہوا کیوں کہ اس سال معروف طبیب اور محقق ڈاکٹر بخت جمال صاحب نے جنم لیا۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی۔ جب کہ انٹر میڈیٹ یعنی (FSc) کا امتحان امتیازی نمبروں سے گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ (موجودہ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج) سے پاس کیا۔ میڈیکل (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مختلف ہسپتالوں میں فرایضِ منصبی سرانجام دیتے دیتے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (DHO) بن گئے۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد متاثرین کی عمدہ طریقے سے خدمت کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے “تمغائے امتیاز” سے نوازا۔
قارئین، ڈاکٹر بخت جمال صاحب ایک متحرک انسان ہیں۔ فرایضِ سے سبک دوش ہوچکے ہیں، لیکن محنت کی عظمت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے تحقیق کی طرف مایل ہوئے اور موضوع کےلیے اپنی جنم بھومی یعنی”گورڑہ” کا انتخاب کیا۔ موصوف کے چار سال جہدِ مسلسل کے بعد ایک خوب صورت کتاب “گورڑہ (گاؤں) ماضی اور حال کے آئینے میں” کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔
مذکورہ کتاب ڈاکٹربخت جمال صاحب کی وہ شاہ کار تصنیف ہے، جو 303 صفحات اور 22 ابواب پرمشتمل ہے۔ عمدہ اور دیدہ زیب گیٹ اَپ کے ساتھ اعراف پرنٹرز محلہ جنگی پشاور سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب وسیع مطالعہ رکھنے والے ایک محنتی محقق اور صاحب الرائے لکھاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب ریسرچ کے طلبہ و طالبات کےلیے خوب فایدہ مند ثابت ہوگی۔ کیوں کہ کتاب میں گاؤں”گورڑہ” کے تہذیبی، تمدنی،سیاسی، تحریکی، قومی، لسانی، طبقاتی، اراضی، سماجی، نسلی،خاندانی اور شجریاتی معلومات محفوظ کیے گئے ہیں۔
کتاب کے پہلے باب میں تپہ سیبوجنی کا حدودِ اربعہ، یہاں کے قوم قبیلے، جایداد اور شیخ آدم بن ملی پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ جب کہ دوسرے باب میں گاؤں کا محلِ وقوع اور وجہ تسمیہ بیان کیا گیا ہے۔ تیسری باب میں زمینوں کی تقسیم، پیمایش اور بنیادی اِکائی پر بات کی گئی ہے۔ چوتھا باب گاؤں کی پن چکیوں اور پائیکو پر لکھا گیا ہے۔ پانچویں باب میں گاؤں کے پیشہ ور یعنی کسب گر کو زیرِ موضوع بنایا گیا ہے۔ چھٹا باب روایتی تفریحی مشاغل جیسے پرانے روایتی کھیل کود وغیرہ پر بحث کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ساتویں باب روایتی گھریلوں کھانوں کےلیے مختص کیا گیا ہے۔ آٹھویں باب میں گاؤں کے جنگلی پھلوں پر بحث ہوئی ہے۔ نواں باب مذہبی تہواروں کےلیے مختص ہے۔ دسویں باب میں روایتی کھانے، لباس اور پوشاک پر بحث ہوئی ہے۔گیارھویں باب میں گاؤں کی جدید سہولیات بیان کی گئی ہیں۔ بارھویں باب میں معاشرے کے کچھ روایتی عملیات زیرِ بحث لائے گئے ہیں جیسے خاپیری اور پیریان (جنات) وغیرہ۔
تیرہویں باب میں گاؤں کے رسومات بیان ہوئی ہیں جب کہ چودهویں باب میں گاؤں “گورڑہ” کے سرکاری ملازمت سے وابستہ لوگوں کا تذکرہ موجود ہے۔ پندرھویں باب میں گاؤں کے زمینوں کی تقسیم پر بحث ہوئی ہے۔ سولہویں باب میں پرانی اور نئی تعمیرات پر بحث ہوئی ہے۔ سترہویں باب میں مذہبی فرقے اور تنظیمیں زیرِ موضوع لائی گئی ہیں۔
اٹھارہویں باب میں سیاسی پارٹیاں اور سیاسی بیداری پر بحث کی گئی ہے جب کہ انیسویں باب میں پرانے زمانےمیں استعمال ہونے والے اشیاء جیسے “شکور”، “شکرئی”، “مدھانی” اور “سوباڑے” وغیرہ مع تصاویر پیش کی گئی ہیں۔ تصاویر اگر رنگین ہوتیں، تو زیادہ مزہ آتا۔ بیسویں باب میں مصنف نے اپنے بچپن کی سردیوں اور گرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ باب نمبر اکیس میں حجرہ، اَشر اور گودر وغیرہ پر بحث موجود ہے۔ جب کہ بائیسویں اور آخری باب میں گورڑہ اور اس کے مضافات کے شجرہ ہائے نسب لکھے گئے ہیں جو بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
قارئین، ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش تاریخ کے طلبہ اور تحقیق سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کےلیے کار آمد کتاب ہے، جو تاریخ کے حوالے سے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ کتاب میں صاحبِ کتاب نے اپنے گاؤں کی تاریخ کو ایک منفرد اور اور نایاب انداز میں یک جا کرکے جدید تقاضوں کے عین مطابق تحریر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے، جس سے ان کی تصنیف میں ایک جدت پیدا ہوگئی ہے۔
کتاب کی وقعت پر ڈاکٹر طاہر بوستان خیل صاحب کچھ یوں رقم طراز ہیں: “یہ وہ تاریخی دستاویز ہے جو کسی علاقے کی تاریخ میں اہم مقام کا حامل ہے۔”
معروف کالم نگار، محقق اور تنقید نگار ساجد علی خان ابو تلتاند کتاب پر اپنا تبصرہ یوں کرتے ہیں۔ “گورڑہ ماضی اور حال کے آئینے میں” پختون تہذیب کا ایسا مینار ہے، جس پر ہمیں ناز ہے۔ یہ خراجِ تحسین کا استحقاق رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہ قومی ورثے کا امین ہے۔ ایک خزینہ ہے، جس کے ہم سب وارث ہیں اور آنے والی نسلیں بھی اس کی روشنی سے مستفید ہوں گی۔”
ان صاحبان کے علاوہ ڈائریکٹر پاکستان سٹیڈیز سنٹر قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر حنیف خلیل اور نام ور کالم نگار و لیکچرار اختر حسین ابدالؔی بھی کتاب پر تبصرہ کرچکے ہیں۔ اگر چہ پروف ریڈنگ کے دوران میں ابدالؔی کے دیباچے پر سنسر شپ کی قینچی خوب چلی ہے، تاہم ان کی دیباچے سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
قارئین، کتاب ہر لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ صرف کاغذ کا معیار ناقص اور چند ایک جگہ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب کی زبان نہایت شستہ، آسان، سادہ اور سلیس ہے، جو کہ ایک عام قاری کےلیے بھی نہایت دل چسپ اور کار آمد ہے۔
الغرض ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش قابلِ داد، قابلِ ستایش اور قابلِ تحسین ہے۔ رب ذوالجلال ان کو مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تا کہ آیندہ بھی ایسی کتابیں منظرِ عام پر لائے، آمین۔
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
____________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 16 نومبر 2023ء بروزِ جمعرات کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: