پچھلے دنوں مَیں یونی ورسٹی سے گھر آرہا تھا، تو ہماری گاڑی ایک جگہ گاڑی رُکی۔ جب گاڑی سے اُترے، تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مفت آٹا لینے کےلیے لوگ جمع ہوئے ہیں، لیکن آٹا نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے احتجاجاً سڑک بند کر رکھا ہے۔ ہم نے سوچا چلے نماز پڑھتے ہیں تب تک یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
نماز کےلیے جاتے ہوئے لوگوں کا حالتِ زار دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ کیوں لائنوں میں ہماری وہ مائیں بہنیں کھڑی تھیں، جو بیمار ہوکر بھی اتنی آسانی سے ڈاکٹر سے چیک اَپ کرانے نہیں جاتیں۔ آج وہ مہنگائی کی وجہ سے مفت آٹے کے حصول کےلیے ذلیل اور خوار ہورہی ہیں۔ وہ بزرگ اور سفید ریش جن کو اس رمضان المبارک کی مقدس مہینے میں مسجد میں بیٹھ کر عبادتِ الہٰی میں مصروف ہونا چاہیے تھا، آج وہ بھی آٹے کےلیے ضعیف العمری میں خوار و زار ہو رہے ہیں۔ وہ نوجوان جن کو اس وطن کی ترقی و خوش حالی کی خاطر اچھے عہدوں پر ہونا چاہیے تھا، آج بے تحاشا مہنگائی اور بے روزگاری کی خاطر ان کی عزتِ نفس مجروح ہورہی ہیں۔
قارئین، لوگوں کی یہ حالتِ زار دیکھ کر راقم کے دل و دماغ میں ڈھیر سارے سوالات نے جنم لیا، جو کچھ یوں ہے؛ اے اللہ، مَیں وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ عبادت گزار ہوں گے۔ کیوں کہ یہ تو سارے آپ کے ماننے والے ہیں، لیکن پھر بھی یہ ایک وقت روزی کےلیے تڑپ رہے ہیں۔ رزق کا وعدہ آپ نے کیا ہے لیکن پھر یہ لوگ رزق سے محروم کیوں ہیں…؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی جنگ، کبھی زلزلہ، کبھی سیلاب اور اب مفت آٹے کی حصول میں زندگی اور موت کی جنگ لڑے رہے ہیں۔ آخر ان بے چارے لوگوں کا گناہ ہے کیا…؟
یہ تمام تر سوالات میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے کےلیے مسجد پہنچا۔ اندر چلا گیا، تو دروازے کے پاس ایک مولوی صاحب بیٹھا ہوا ہے جس نے چندہ کےلیے چادر بیچائی ہوئی ہے۔ نمازی آکر چادر میں اپنی استطاعت کے مطابق پیسے ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ظلم، زیادتی، وسایل کی غیر منصفانہ تقسیم اور حکم رانوں کی ناکام پالیسیوں پر بات نہیں کرتے، بلکہ ان کےلیے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔
قارئین، ان لوگوں سے آپ کو محض یہ باتیں سننے کو ملی گی کہ اللہ تعالا ہم سے ناراض ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالا ہی کی طرف سے ایک امتحان اور عذاب ہے۔ کیوں کہ ہم اللہ تعالا کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اگر بات اللہ تعالا کی نافرمانی کی ہوتی، تو یورپ، کینیڈا اور چائینہ والے آج بھوک سے مر رہے ہوتے۔ لیکن آج وہ خوش حالی سے زندگی جی رہے ہیں۔
جب مَیں نماز پڑھنے کےلیے کھڑا ہوا، تو ذہن میں یہ بات آگئی کہ رب کاینات نے ہمارے لیے ضرورت سے زیادہ اس زمین سے سب کچھ اُگا دیا ہے۔ اگر ہم ان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے میں لگ جائیں، تو پھر بھی یہ ختم نہیں ہوسکتے۔ لیکن بدقسمتی سے سارا مسئلہ صرف وسایل اور اس کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ دنیا کے طاقت ور ممالک کم زور معیشت رکھنے والے ممالک کو کچھ دینے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ یہ ممالک معاشی ترقی کی طرف گام زن ہو اور دنیائے جہاں کا نظام برابری کی بنیاد پر چل پڑیں۔ اگر ہم اپنی معاشرے کا بغور جایزہ لیں، تو یہ ممالک ہمیں ملک، وڈیرہ، سردار، نواب، چودھری اور خان بھی سکتا ہے۔
لہذا ہمیں اپنی حقوق کےلیے اٹھنا ہوگا اور ان سرمایہ داروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہوگا، تاکہ مستقبل میں ہمارے بچے آٹے کے حصول کےلیے قطار میں نہ زندگی کی بازی نہ ہارے۔
__________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔