قارئین، کیا آپ جانتے ہیں کہ حکومتِ برطانیہ کے پاس جو سرکاری گاڑیاں ہیں، ان کی کُل تعداد 45 ہے۔ یعنی برطانیہ میں 45 سرکاری گاڑیوں کا ایک پول ہے، جو تمام وزارتوں اور سرکاری دفاتر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی گاڑی کسی کے نام پر نہیں ہے۔ کسی ضرورت کے وقت جو گاڑی موجود ہو گی، وہی استعمال ہوگی۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے، تو وطنِ عزیز پاکستان جو اس وقت معاشی بد حالی سے گزر رہا ہے، کے ایک ہی صوبے یعنی صوبہ سندھ میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہے۔
قارئین، فرض کریں اگر پاکستان میں 20 ہزار افراد کو بلا معاوضہ پیٹرول کی سہولت میسر ہے اور ایک افسر اگر ماہانہ 400 لیٹر پیٹرول استعمال کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80 لاکھ لیٹر پیٹرول فری دینا پڑتا ہے۔ جس کو خریدنے کےلیے ماہانہ تقریباً 50 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ وہ اصل ناسور ہے، جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔
اگر ہم وطنِ عزیز پاکستان کو بیرونی قرضوں کے دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ملکی اشرافیہ کا فری پیٹرول، بجلی اور ہوائی ٹکٹ جیسے سہولیات ختم کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں کے حجم کو کم کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت اراکینِ پارلیمان کی تنخواہوں کا مجموعی حجم 35 ارب 54 کروڑ اور 70 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔
شیئرکریں: