قائدِ اعظم محمد علی جناح جب پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے، تو ان کی تنخواہ کتنی تھی…؟ یہ سوال پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ ان کی علامتی ایک روپے کی تنخواہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے، لیکن یہ پہلی بار 1976ء میں سامنے آیا جب محمد علی جناح کی صد سالہ پیدائش منائی گئی۔ اس کے بعد یہ مقبول ہوا اور کئی کتابوں میں نقل ہوا۔ لیکن حکومتِ پاکستان اس حوالے سے کیا کہتی ہے اور محمد علی جناح کے پے بل کے مطابق ان کی ماہانہ تنخواہ کیا تھی، کسی نے اس حوالے سے تحقیق کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔
سوشل میڈیا جو نت نئی اور دلچسپ معلومات کا ذریعہ ہے وہیں بعض اوقات اس پر غلط معلومات بھی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل 1948ء کی ایک تاریخی دستاویز کے ساتھ یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ بطورِ گورنر جنرل پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ماہانہ تنخواہ 01 روپے تھی۔ دستاویز منظرِ عام پر آنے کے بعد بطورِ گورنر جنرل پاکستان صرف ایک روپیہ تنخواہ کی وصولی پر لوگوں کی طرف سے حیرانگی کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ محمد علی جناح کی تنخواہ کی سرکاری فائل نیشنل آرکائیوز آف پاکستان اور اسلام آباد میں قائدِ اعظم پیپر سیل میں محفوظ ہے۔ اس تاریخی دستاویزات اور سیلری سلپس کا عمیق نظری سے مشاہدہ کیا جائے، تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح کی تنخواہ 10 ہزار 416 روپے اور 10 آنے تھی۔
ان دستاویزات کے مطابق محمد علی جناح کی قیامِ پاکستان کے بعد بطورِ گورنر جنرل تعیناتی کے بعد باقاعدہ تنخواہ مقرر کی گئی تھی اور اس کا پے بل بھی ہر مہینے منظوری کے مراحل سے گزرتا تھا اور انہیں ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا تھا۔یہ اصول ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ کی فائل پر چارج لینے کی تاریخ اور نمونے کے دستخط ہوتے ہیں، اس لیے نمونے کے دستخط بھی محمد علی جناح سے لیے گئے۔ انہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کا سرٹیفکیٹ بھی درج ذیل الفاظ میں فراہم کیا: “میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے 15 اگست 1947ء کی صبح گورنر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا ہے۔”
پاکستان فاؤنڈیشن کے بانی عملے نے باقاعدگی سے ان کی تنخواہ کا بل ان کے ملٹری سیکرٹری کرنل جے نولز (Col. J. Knowles) کے حوالے کیا تاکہ وہ مقررہ جگہ پر محمد علی جناح سے دستخط کرائیں۔ رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد وہ بل سٹاف کو واپس کر دیں گے جسے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو کو بھجوا دیا گیا۔ ایک کاپی قائدِ اعظم کی ذاتی فائل میں رکھی گئی تھی جو اسسٹنٹ سیکرٹری ایف امین (F. Amin) نے رکھی تھی۔
قارئین، قائدِ اعظم کی ماہانہ تنخواہ کا پہلا پے بل اگست 1947ء سے جنوری 1948ء تک کا بنایا گیا تھا جس کی کل رقم 57 ہزار 795 روپے اور 13 آنے بنی تھی جس میں سے انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کی کٹوتی کے بعد 34 ہزار 5 سو 88 روپے 5 آنے کی رقم قائدِ اعظم کو ادا کی گئی تھی۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح جب فوت ہوئے، تو ان کی تنخواہ کا بل اکاونٹنٹ جنرل آفس میں منظوری کےلیے موجود تھا جس پر قائدِ اعظم نے 24 اگست 1948ء کو دستخط کئے تھے۔ اس سیلری بل میں قائد کے ستمبر 1948ء کے 11 دنوں کی تنخواہ شامل نہیں تھی۔ اے جی پی آر آفس نے مارچ 1948ء سے جولائی 1948ء تک ٹیکس کی مد میں منہا کی گئی رقم کا تمام حساب کتاب لگانے کے بعد قائدِ اعظم کی اگست 1948ء کے بل سے ٹیکس کٹوتی نہیں کی اور ان کی وصیت کے مطابق ان کی وراثت کو فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے حوالے کر دیا گیا۔
قائدِ اعظم کی آخری تنخواہ کی رقم 14 ہزار 236 روپے چار آنے تھی جس میں اگست کی تنخواہ 10ہزار 416 روپے 10 آنے جب کہ ستمبر 1948ء کی 11 دنوں کی تنخواہ 3 ہزار 8 سو 29 روپے 11 آنے شامل تھی جو محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے کی گئی۔ جب کہ الاؤنسز کی مد میں 12 ہزار 129 روپے 1 آنہ بھی فاطمہ جناح کو بذریعہ خط ارسال کر دیا گیا۔
قائدِ اعظم بلاشبہ ایک عظیم لیڈر تھے۔ یہ ڈاکیومنٹ ان کی عظمت کو کم نہیں کر سکتا، لیکن ہمیں حقیقت کا علم ہونا چاہیے۔ تاہم “ایک روپیہ تنخواہ” والی کہانی اور تاریخی ڈاکیومنٹس میں تضاد پایا جاتا ہے۔ قائدِ اعظم کی تنخواہ کی دستاویزات اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ بطورِ گورنر جنرل پاکستان 01 روپیہ نہیں بلکہ ایک معقول تنخواہ لیتے تھے اور سرکار کی طرف سے انہیں آخری دن تک کی تنخواہ ادا کی گئی۔ یہ ہے بانی پاکستان محمد علی جناح کی تنخواہ کی سچی کہانی جس کی تصدیق نیشنل آرکائیوز آف پاکستان (National Archives of Pakistan) اور قائدِ اعظم پیپر سیل اسلام آباد (Quaid i Azam Paper Cell Islamabad) سے کی جا سکتی ہے۔
قارئین، قیامِ پاکستان سے قبل وکالت کے ساتھ ساتھ جناح کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ مختلف کمپنیوں کے شیئرز اور پراپرٹی کی خرید و فروخت تھا۔ وہ اپنی تمام تر آمدنی کا باقاعدہ حساب رکھتے تھے۔ ان کا شمار برِصغیر کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا، جوسپر ٹیکس اور سپر ٹیکس سرچارج بھی ادا کرتے تھے۔ اس معاشی خود کفالت کے باعث قائد کو آزادی عمل حاصل تھا۔ ان کے ہم عصر بیش تر سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ گاندھی جی تو ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرتے ہیں اور آپ درجہ اوّل میں، قائد کا جواب تھا کہ ان کا کرایہ کانگریس ادا کرتی ہے، جب کہ میں فرسٹ کلاس کا ٹکٹ اپنی جیب سے خریدتا ہوں۔ قائدِ اعظم نے جو بھی بطورِ وکیل کمایا، وہ خود ان کی محنت کی کمائی تھی۔ ان کے کردار اور عمل میں بے پناہ خود داری تھی، وہ مسلم لیگ کے تا حیات صدر رہے، لیکن انہوں نے اپنی ذات کےلیے ایک پائی بھی مسلم لیگ فنڈز سے نہیں لی۔ اپنی علالت کے دوران قائد نے معالجین کے اصرار کے باوجود برطانیہ اور امریکا سے ڈاکٹر بلوانے سے انکار کر دیا کہ اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا۔