عورت کو با اختیار بنانا اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ تب تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس میں عورت کا کردار معاشرے کے تمام پہلو میں مرد کے برابر نہ ہو۔ دنیائے جہاں میں تعلیم عورت کو با اختیار بنانے کا سب سے اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ابھی تک دونوں جنسوں یعنی مرد اور عورت کو مساوی تعلیم فراہم کرنے میں نا کام نظر آرہی ہے۔
حال ہی میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ جس میں 32 فی صد شرح ان بچوں کی ہے جن کی پرائمری سکول تک رسائی نہیں ہے۔ اسی طرح مملکتِ خداداد میں محض 13 فی صد لڑکیاں میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھتی ہیں، جو جنوبی ایشیا کی دوسری کم ترین شرحِ تعلیم ہے۔ اگر یہ شرح اسی طرح چلتی رہی، تو وہ دن دور نہیں جب ہم زمانے کی تاریکیوں میں ڈوب جائیں گے اور اس جدید دنیا میں ہماری بقا مشکل ہو جائے گی۔
قارئین، تعلیم کے راہ میں حائل رکاوٹوں اور مسائل کا اگر مختصر جائزہ لیا جائے، تو اس میں معاشی عدمِ استحکام سرِ فہرست ہے۔ کیوں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی بحران کوئی نئی بات نہیں۔ ورلڈ بینک کے رپورٹ کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان میں آج بھی 40 فی صد سے زائد لوگ غربت اور 22 فی صد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں ایک غریب کےلیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ وہی غریب اپنے بیٹے پر تعلیم تو کر سکتا ہے لیکن بیٹی پر نہیں۔
اس کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹیں صرف یہاں تک محدود نہیں، کیوں کہ اس میں ایک اہم کردار ہمارے معاشرے کا بھی ہے۔ وزارتِ برائے انسانی حقوق کے مطابق پاکستان میں پچھلے چار سالوں کے دوران 14،000 سے زائد جنسی ہراسانی کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر جنسی ہراسانی کے رپورٹس اس معاشرے میں بذاتِ خود عورت کے تحفظ پر ایک سوال ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں عورتوں کی عزت محفوظ نہ ہو اور خاندان کو اپنی وقار کی فکر لاحق ہو، تو وہاں پر اپنی عزت بچانے کا سب سے آسان کام اپنی بچیوں کو گھر کے چار دیواری تک محدود کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں زیادہ تر لوگ لڑکیوں کی تعلیم کو اپنے روایات کا حصہ مانتے ہی نہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ اس خاندان کے مرد ان چودہ ہزار کی فہرست میں خود بھی شامل ہوں۔
قارئین، ہم اگر لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹوں کی بات کو آگے بڑھائے، تو اس میں ایک بڑی رکاوٹ کم عمری کی شادیاں بھی ہے جس کی وجہ سے بچیوں کی تعلیم پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسیف (UNICEF) کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 21 فی صد شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کیے جاتے ہیں۔ جس میں تین فی صد شادیاں پندرہ سال سے بھی کم عمر میں ہوتی ہے۔ جب کم عمری کی شادیاں ہوتی ہے، تو ہم لوگ شروع سے ہی بچے پیدا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، جس سے آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے وسائل کی کمی کے باعث معاشرے میں کئی معاشی اور سماجی برائیاں جنم لیتی ہے۔
مذکورہ بالا مسائل میں کی فہرست میں لڑکیوں کے تعلیم کو درپیش مشکلات میں مذہب کی غلط تشریح بھی شامل ہے۔ کچھ مذہبی بنیاد پرست گروہ لڑکیوں کے تعلیم کو اسلام کی منافی قرار دیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال وادئ سوات کے وہ گرلز سکولز ہیں، جنہیں شورش کے دوران میں انتہا پسندوں نے بموں سے اُڑا دیئے تھے۔ اگر چہ دینِ اسلام کا حکم بلکل واضح ہے کہ تعلیم ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے۔
قارئین، ان تمام ذکر شدہ مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت وقت ایسی پالیسیاں مرتب کریں جس میں لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی انتہائی آسان ہو۔
☆ واعظین کو چاہیے کہ وہ منبر سے اسلام کی روشنی میں لڑکیوں کی اہمیت کو بیاں کریں۔
☆ تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یونین کونسل کے سطح پر گرلز سکولز اور کالجز بنایا جائے۔
☆ معاشرتی اقدار پر کام کرکے معاشرے میں عورتوں کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
☆ ایسے عناصر جو لڑکیوں کی تعلیم پر اثر انداز ہوتے ہو، چاہے وہ بوسیدہ روایات ہو یا پھر بنیاد پرست گروہ، کی بیخ کنی کی جائے۔
☆ کم عمری میں شادی کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مذہب کے رو سے قدامت پسند معاشرے میں تعلیم کی از سرِ نو تشریح کیا جائے۔
☆ لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کےلیے مختلف سیمینارز اور واک کا اہتمام کیا جائے۔
☆ ان والدین کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اپنے بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ان کے بیٹیاں ہر قسم کے تشدد سے بالکل محفوظ ہیں۔
__________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: