لفظ لبرل قدیم لاطینی زبان کے لفظ “لائبر” یا پھر اسی لفظ کے مترادف “لائبرالس” سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب جسمانی طور پر آزاد شخص ہے۔ یعنی ایک ایسا انسان جو کسی کا غلام نہ ہو۔
قارئین، یہ معنیٰ اٹھارہویں صدی عیسوی تک رہا اور ہر آزاد شخص کو لبرل (Liberal) کہا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں یہ لفظ اس شخص کےلیے استعمال ہونے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔ یعنی ایک ایسا شخص جو مذہب کی پابندیوں کو نہ مانے اور اپنی فکر میں آزادی کا دعوے دار ہو، لبرل کہلانے لگا۔
جب کہ اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست، جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کریں، لبرل ازم (Liberalism) کہلاتا ہے۔
قارئین، اس فلسفے کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے، تو اس کی ابتدا یورپ کی “ایج آف اینلائٹمنٹ” (Age of enlightenment) کی سیاسی تحریک سے ہوئی اور جان لوک (John Locke) کو اس کا بانی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے اس فلسفے پر کتاب لکھی۔
جان لوک کے مطابق ہر شخص کو قدرتی طور پر زندگی، آزادی اور مال و دولت کے حقوق حاصل ہیں اور ریاست عمرانی معاہدے (social contract) کے تحت اس کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہے۔ قانون سازی بھی پوچھ کر کی جائے اور اگر ریاست اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوتی ہے، تو عوام بھی ایسے حکمران کے خلاف بغاوت کرے۔ اگرچہ اس بات پر ان کو انتہا پسند (extremist) بھی کہا گیا لیکن ان کو ان بنیادی حقوق کی بات پر مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
لبرل ازم کے مطابق سب کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور جنس شخصی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ہر انسان اپنے فیصلوں کو لے کر معاشرتی دباؤ سے بالاتر ہو، تجارت بھی آزاد ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو، ریاست کی مداخلت کم سے کم اور انفرادی آزادی زیادہ سے زیادہ ہو۔
اسی طرح حکومت سازی بھی عوام کی مرضی سے ہو یعنی جمہوریت ہو، سب کے لیے قانون برابر ہو اور یکساں جواب دہی ہو، سب کو یکساں اظہار رائے حاصل ہو، کیوں کہ تمام انسانیت برابر ہے۔ لہذا قوانین بھی یکساں و بین الاقوامی ہوں، ہر کسی کو تنظیم سازی چاہے سیاسی ہو، معاشرتی یا پھر معاشی، کا حق ہو۔ میڈیا آزاد ہو، عدلیہ خود مختار اور ریاستی دباؤ سے بالاتر ہو اور تعلیم پر بھی سب کا حق ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو بھی مساوی حقوق اور مواقع میسر ہوں۔
اسی طرح اگر مذہبی آزادی کی بات کی جائے، تو بھی یہ نظام تمام مذاہب کے پیروکاروں چاہے اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، کو ہر طرح کا تحفظ، برابری اور آزادی فراہم کرتا ہے۔
قارئین، درجہ بالا سطور کی تناظر میں مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خیالات یا تصورات جس میں فیصلوں کا حق ریاست اور معاشرے کے بجائے فرد کو حاصل ہو، لبرل ازم کہلاتا ہے۔
شیئرکریں: