14 اگست 2022ء کے ایک خوش گوار دن نمازِ ظہر کے بعد دستر خواں پر بیٹھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر نظر ڈالی، تو ہمارے کالج کے دوست شہزاد تھے۔ ترنت کال اٹینڈ کی۔ حال احوال پوچھنے کے بجائے کہنے لگے: "ابدالی، جنازے کا اعلان ہوا کہ نہیں؟”
مَیں نے حیرانی سے پوچھا: "جنازہ……کس کا جنازہ؟”
کہنے لگے، آپ کو پتا ہی نہیں کہ پروفیسر فضل سبحان انتقال کرگئے ہیں؟
یہ سنتے ہی میرا ذہن ماوف سا ہوگیا۔ کیوں کہ ہماری ہر دل عزیز شخصیت اور گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے شعبۂ انگریزی کے چیئرمین پروفیسر فضل سبحان صاحب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
گمان تک نہ ہوا وہ بکھرنے والا ہے
خبر تھی کیا کہ لحد میں اُترنے والا ہے
وقتی طور پر میرا دل پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر تسلیم کرنے کو آمادہ ہی نہیں تھا۔ کیوں کہ موصوف کی موت کی خبر ایک ایسا جھٹکا تھی جس کے بعد تا دیر بے یقینی کی سی کیفیت طاری رہی لیکن انسان کو اللہ تعالا کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ذی روح کو موت کا ذایقہ ضرور چکھنا ہے اور اپنی اپنی باری پر ہر ایک نے اس دنیا سے جانا ہے۔
خوب صورت اور پُر وقار چہرہ، سنجیدگی، متانت اور دھیما پن پروفیسر مرحوم کی شخصیت کے نمایاں عناصر تھے۔ میانہ قد، داڑھی منڈی ہوئی، متناسب کالی موچھ، کوئی اگر ان کو دیکھتا، تو آنکھ ہٹانے کو دل نہ چاہتا۔ کیوں کہ خوب صورت رنگت، پُروقار و باوقار شخصیت اور لال چہرہ جس پر سنجیدگی ڈیرا جمائے رکھتی۔
اگر ان کی شخصیت کا بغور جایزہ لیا جائے، تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کالج کو اپنا گھر سمجھنا، سٹاف سے تعاون کرنا اور طلبہ و طالبات کے والدین سے قریبی رابطہ رکھنا ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔
استادِ محترم جب سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے، تو ان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد جو اندرون اور بیرونِ ممالک میں مقیم ہیں، کی آ نکھیں نم ہوگئیں۔
ان کی وفات کی خبر سننے کے بعد ان کے ساتھ گزرے لمحات ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔ گذشتہ ہفتے پروفیسر سبحانی جوہر (مرحوم) کی زیرِ طبع ناول "Miss Shufta” کی پروف ریڈنگ کرکے اس پر اپنی طرف سے لکھا گیا مقدمہ اور ناول کا پروف شدہ مسودہ سید داود شاہ کے ہاتھوں راقم کو بھیجا۔ اس طرح انتقال سے ایک دن قبل یعنی 13 اگست بروزِ ہفتہ بوقت 11 بجے میری ان سے کالج سٹاف روم کے سامنے ملاقات ہوئی۔ راقم نے تھیسز پر نظرِ ثانی کی درخواست کی، تو موصوف نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اگر مَیں تیرے لیے یہ کام نہ کرسکوں، تو میرے اور تیرے اس تعلق کا فایدہ کیا…؟ مسکرا کر روانہ ہوتے ہوئے کہا کہ پیر کے روز مجھے اپنے تھیسز کی "پی ڈی ایف فائل” دے۔ مَیں ایک دو روز میں ایڈٹ کرکے آپ کو واٹس ایپ کر دوں گا۔
ہماری بزم میں کل ہی تو تھا یہاں موجود
کسے پتا تھا کہ جوہر بچھڑنے والا ہے
قارئین، پروفیسر فضل سبحان ایک ادیب اور استاد ہی نہیں، بلکہ اپنی ذات میں اِک انجمن تھے۔ آپ شروع ہی سے تعلیم کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی۔ تعلیمی میدان میں اپنی کام یابیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جب گریجویشن مکمل کی، تو خوازہ خیلہ میں واقع ایک نجی سکول میں درس و تدریس سے منسلک ہوکر نسلِ نو کی آبیاری کرنے لگے۔ کچھ ہی عرصہ بعد "سی ایس ایس” جیسا سخت امتحان دینے حاضر ہوئے، تو پہلی ہی کوشش میں تحریری امتحان کو پاس کرنے کے بعد انٹرویو میں بھی کامیاب ہوئے، لیکن بدقسمتی سے نشستوں کی کمی کی وجہ سے میرٹ میں نہ آسکے۔ ہمت نہ ہارتے ہوئے اگلے ہی سال پاکستان ائیر فورس میں کمیشنڈ آفیسر کے طور پر بھرتی ہوئے۔ اس کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر لیکچرار بن گئے۔ لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد 2011ء میں دوبارہ خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے شعبۂ انگریزی میں لیکچرار کے طور پر تعینات ہوئے اور اس وقت گریڈ 18 کے پروفیسر اور ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔
قارئین، موصوف کی اچانک رحلت سے گویا گلستانِ علم و ادب سے گلِ صد برگ مرجھا گیا ہو۔ یہی نظامِ قدرت ہے کہ فانی چیزوں کو زوال ہے۔
اُستادِ محترم آج سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے، تو اہلِ علاقہ میں موجود ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ بلاشبہ ان کی وفات پر تحصیلِ مٹہ اور خوازہ خیلہ کی فضا سوگوار رہی۔ کیوں کہ پروفیسر صاحب ایک نفیس انسان تھے۔ ان کی ناگہانی موت کی الم ناک خبر نے دل و دماغ کو ہر دوسرے موضوع سے ہٹا دیا۔ کیوں کہ کچھ جانے والے اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ کر جاتے ہیں کہ اُس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
آپ نے جنت نظیر وادی "سوات” میں قیامِ امن کے لیے سوشل میڈیا اور قلم کے ذریعے بھرپور اور توانا آواز اٹھاتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق خطے میں امن کا پیغام دینے کے لیے تگ و دو کی۔ وہ نرم مزاج، اچھے اور نِڈر انسان تھے۔ ان کے اخلاق سے ہر شخص متاثر تھا۔ مَیں نے بذاتِ خود انہیں حلیم طبع، منکسر المزاج، ادب و احترام کا پیکر اور اعلا خوبیوں کا مالک پایا۔ ہر ایک کے ساتھ پیار، خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے کافی سوچ بچار سے کام لیتے اور محفل اور موقع محل کی مناسبت سے گفتگو کرتے۔ ان کی گفتگو سے شریکِ محفل محظوظ ہوئے بنا نہ رہتے، اس طرح اپنے شاگردوں کے ساتھ آزاد ماحول میں گفتگو کیا کرتے اور ہمیشہ ان کو وعظ و نصیحت کیا کرتے۔
انتقال سے کچھ دن قبل ایک پروگرام میں کالج کے طلبہ و طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: "ہمیشہ اپنے حق کے لیے لڑو۔ اگر مَیں بھی آپ کے ساتھ کچھ خلافِ قانون کرتا ہوں، تو آپ میرے وقار کی پروا کیے بغیر بلاجھجک اپنے حق کے لیے میرے سامنے کھڑے ہوا کرو۔”
ایک اور نصیحت یہ کی: "ہمیشہ مطالعہ کرتے رہو، کیوں کہ یہ مطالعہ ہی ہے جو انسان کے علم کو وسعت دیتا ہے۔”
یہ بھی کہا کہ 21 ویں صدی میں کاہل لوگ نہیں جی سکتے۔ آپ کو اپنا مستقبل بنانے اور معاشرے میں کام یاب شخص کہلانے کے لیے محنت اور کوشش کرنا ہوگی۔
اور آخر میں فرمایا: "آپ اگر میری ان تجاویز سے اختلاف رکھتے ہیں، تو اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ میری عزت یا احترام نہیں کرتے۔ کیوں کہ اختلاف رکھنا آپ کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔”
مرحوم کے دل میں پختون قوم کے نوجوانوں کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لاکھڑا کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور یہی وجہ تھی کہ موصوف مختلف فورمز پر ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہتے۔
قارئین، پروفیسر مرحوم کی موت سے سوات کے بالعموم اور تحصیل مٹہ و خوازہ خیلہ کے تعلیمی شعبے میں بالخصوص ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔ کیوں کہ یہاں کے تشنگانِ علم ایک قابل، مخلص اور عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے۔
مرحوم اپنی خداداد صلاحیتوں اور مخلصانہ جد و جہد کی وجہ سے وادیِ سوات کے اندر ایک درخشاں ستارے کی مانند جھلملانے لگے تھے۔ یہ ملن سار شخصیت اور انگریزی زبان و ادب کا درخشاں ستارہ سوگواران میں 2 بیٹے، 1بیٹی اور ہزاروں شاگردوں کو چھوڑ کر تقریباً 42 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے، جنھیں بعد میں آبائی گاؤں چالیار، خوازہ خیلہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
جنازے میں ضلع بھر سے محکمۂ تعلیم کے افسران سمیت شاگردوں، صحافیوں، سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ آج اس جہاں سے علم و ادب کا ایک درخشاں ستارہ سونے جا رہا ہے۔ جنازے میں ہر دل مغموم اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ کیوں کہ کچھ لوگ رخصت ہوتے ہوئے صرف گھر، خاندان اور قریبی رشتہ داروں کو سوگوار چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن پروفیسر فضل سبحان جیسے لوگ ساری گلشن کو ویران کر جاتے ہیں۔
سڑے چی مڑ شی کور پی وران شی
پہ بعضے خلکو باندے وران شی وطنونہ
موصوف کی موت یقیناً پورے علاقے کے لیے کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں۔ بقولِ شاعر
تعزیت کون کرے آج تیرے جانے پر
شہر کا شہر تو شامل لواحقین میں ہے
قارئین، بعض سوشل میڈیائی پوسٹوں میں اور کچھ لوگوں نے پروفیسر فضل سبحان صاحب کی موت کو خود کُشی کا رنگ دیا ہے، جوکہ بالکل غلط ہے۔ کیوں کہ ان کی موت تاحال ایک معمہ ہے۔ پروفیسر صاحب (مرحوم) تو بندۂ ناچیز سمیت اپنے ہزاروں شاگردوں کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتے رہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی زندگی کا چراغ گُل کرنے جیسی کم ہمتی دکھا سکتے ہیں؟
فروری 2019ء میں موصوف نے اپنی فیس بُک وال پر ایک پوسٹ کی تھی، جو کچھ یوں تھی: "اس دیس کے ہر مقتول کو چاہیے کہ وہ اپنے قتل کی ویڈیو بنوائے، ورنہ اس کے قتل کو قتل تسلیم نہیں کیا جائے گا۔”
اسی طرح 15 اگست کو ان کے والدِ محترم عزت شیر صاحب نے بھی ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ میرے جواں بیٹے کی اچانک موت میرے لیے نا قابلِ برداشت ہے۔ جب سے مَیں نے اپنے بیٹے کی موت کی خبر سنی ہے، تو جیسے ہوش و ہواس کھو بیٹھا ہوں۔ کیوں کہ میرے لیے یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ مَیں نے سوشل میڈیا یا کسی اور ذرایع سے ان کی موت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ سوشل میڈیا اور علاقے کے لوگوں میں جو باتیں اور افواہیں گردش کررہی ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں۔
لہٰذا ہم (گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات) یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پروفیسر فضل سبحان صاحب کی پُراسرار موت کی سائنسی بنیادوں پر صاف، شفاف اور غیر جانب دار تحقیقات ہونی چاہئیں، تاکہ ان کی موت کی اصل وجہ معلوم ہو اور ان کے دامن پر لگے "خود کُشی” کا بدنما داغ دُھل جائے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا پروفیسر صاحب کے احباب، رشتہ داروں اور شاگردوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
___________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 19 اگست بروز جمعہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔