11 ستمبر 1948ء میں قایدِاعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد مولوی تمیز الدین پاکستان کے آئین ساز اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے لیکن 7 سال گزرنے کے باوجود اسمبلی نیا دستور (آئین) بنانے سے قاصر رہی۔ اس کی وجہ سے 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔
حکم نامے کا متن تھا کہ “ملک میں سیاسی بحران پیدا ہے، آئینی مشینری ٹوٹ چکی ہے۔ آئین ساز اسمبلی، عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ اس لیے گورنر جنرل نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے۔ جب تک الیکشن نہیں ہوں گے، تب تک گورنر جنرل اور اس کی منتخب کردہ کابینہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گی۔”
مذکورہ فیصلے کے خلاف اسپیکر مولوی تمیز الدین سندھ چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) چلے گئے اور دعوا دایر کیا کہ گورنر جنرل کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا قانونی اختیار نہیں۔ کیوں کہ 15 اگست 1947ء کے عبوری آئینی حکم کے تحت گورنر جنرل سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ اب صرف اسمبلی ہی کے پاس خود کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی موقف اپنایا گیا کہ نیا آئین تیار ہے جو 25 دسمبر کو اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے۔ جب کہ گورنر جنرل کا یہ الزام کہ آئینی مشینری ٹوٹ چکی ہے، بھی جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں کیس کا دفاع کرتے ہوئے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے وکلا کا موقف تھا کہ گورنر جنرل کے پاس وہی سارے اختیارات اب بھی موجود ہیں جو غلاموں کے اوپر برطانیہ کے بادشاہ کے پاس ہوتے تھے، مگر اُس وقت سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس “جارج کانسٹنٹائن” نے مذکورہ موقف کو رد کرتے ہوئے حکم دیا کہ گورنر جنرل کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ کیوں کہ گورنر جنرل کو جمہوریت ہائی جیک کرنے کا اختیار نہیں اور یوں اسمبلی کو واپس بحال کر دیا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) چلے گئے۔ جہاں پنج رُکنی بینچ نے کیس سنا۔ اُس وقت پاکستان کے دوسرے چیف جسٹس، جسٹس منیر کی سربراہی میں پانچ ججوں میں سے چار نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ان سیاست دانوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے گورنر جنرل غلام محمد ملک بچانے کےلیے جو چاہیں، کرسکتے ہیں۔ بینچ میں شامل انگریز جج جسٹس اے آر کارنلئیس نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قانون سب سے بالاتر ہے اور اس کی پیروی کرنی چاہیے۔
جسٹس منیر کے فیصلے سے پاکستان میں کچھ مقتدر حلقوں کو اختیار مل گیا کہ وہ چاہیں، تو سیاہ کو سفید کریں یا دن کو رات، مگر ملک کے مفاد کی خاطر ہر قانون اور ہر اصول کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔
جسٹس منیر کا یہ متنازعہ فیصلہ پاکستانی تاریخ میں “نظریۂ ضرورت” کی بنیاد بنا، جس کو بعد میں ضرورت پڑنے پر جنرل اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف سمیت ہر ڈکٹیٹر نے اپنے غیر قانونی اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کےلیے استعمال کیا۔
______________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 14 اپریل 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: