انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997ء کے مطابق اگر کوئی خفیہ ادارہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائے جس کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ کسی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم سے ہو، تو اُن کا نام ایک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے جس کو شیڈول فورتھ کہا جاتا ہے۔
قانون کے مطابق سیکورٹی ادارے یعنی پولیس، سپیشل برانچ اور سویلین انٹلیجنس شیڈول فورتھ میں شامل افراد کی نقل و حرکت، کاروبار اور تقریر پر کڑی نظر رکھیں گے۔ کیوں کہ فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد متعلقہ شخص اپنی نقل و حرکت کے بارے میں اپنے ضلعی پولیس آفیسر کو آگاہ کرنے کا پابند ہوگا۔
اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل منظور بشیر تنگی نے بتایا کہ یہ قانون تب لاگو ہو سکتا ہے جب کسی فرد کا ایک ایسی تنظیم سے تعلق ہو، جو حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی ہو یا اُس کی نگرانی کی جارہی ہو، تو صوبائی حکومت اُس شخص کے متعلق وزارتِ داخلہ کو شفارشات بھیج کر گی اور سفارشات متعلقہ شخص کا نام شیڈول فورتھ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔ جس کے بعد متعلقہ شخص اپنے ضلعی پولیس سربراہ (DPO) کو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا پابند ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے، تو متعلقہ پولیس اُسے گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔
منظور بشیر نے بتایا کہ اگر کسی بندے کا کسی کالعدم تنظیم سے تعلق نہ ہو یا صرف چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہو، تو اُن کا نام اسی فہرست میں شامل کرنا خلافِ قانون تصور کیا جائے گا۔ کیوں کہ شیڈول فورتھ میں نام شامل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کا کسی کالعدم تنظیم سے تعلق یا رابطہ ہو۔ اگر حکومت بدنیتی سے کسی عام بندے کا نام لسٹ میں شامل کرے، تو یہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (4) کی خلاف ورزی ہوگی جس کا مطلب شہری کی آزادی سلب کرنا ہے۔ اگر ایسا ہوا، تو متعلقہ شخص آئین کے آرٹیکل 10 (4) کے تحت ہائی کورٹ میں کیس دائر کرسکتا ہے۔
ایڈوکیٹ منظور بشیر کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کا ادارہ نیشنل کاونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (نیکٹا) قانون کے مطابق کسی شخص کا نام محض تین سال تک شیڈول فورتھ میں رکھا جاسکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کا نام نکالا جائے گا۔
طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق شیڈول فورتھ میں نام شامل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے جو ضلعی کمیٹیوں کی طرف سے بھیجی جانی والی رپورٹ پر فیصلے کرتے ہیں۔
شیئرکریں: