’’کسی فرد یا گروہ کا وہ غیر قانونی عمل جس سے کسی ملک، معاشرہ یا خاندان میں خوف و ہراس اور دہشت پھیل جائے، دہشت گردی کہلاتا ہے۔‘‘
دہشت گردی اور انتہا پسندی جو کہ کسی بھی معاشرے میں مذہب کی غلط تعبیر اور استعمال کی وجہ سے جڑ پکڑتی ہے۔ یوں اس ناسور کی بیخ کنی کےلیے بھی مختلف طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم فریضہ علما ہی کا بنتا ہے۔ نام نہاد ’’افغان جہاد‘‘ اور پھر ناین الیون کے بعد جب یہ ناسور پورے آب و تاب کے ساتھ نہ صرف افغانستان بلکہ وطنِ عزیز پاکستان کے قبایلی علاقہ جات، خیبر پختون خوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا، تو لاکھوں معصوم کلمہ گو مسلمان اس خون خوار بیانیے پر یقین رکھنے والے نام نہاد مجاہدین کے ہاتھوں شہید، جب کہ اس سے کئی زیادہ زخمی، معذور اور بے گھر ہوئے۔ بدقسمتی سے مذہب کے نام پر خوف پھیلانے اور ایک دوسرے کی گردن زنی کا یہ کھیل اب بھی عروج پر ہے۔ مذہب کی غلط تعبیر اور استعمال سے تشکیل پانے والے اس بیانیے کو مملکتِ خداداد پاکستان میں جن علما نے ببانگِ دُہل رد کیا تھا، اُن میں سے ایک معتبر حوالہ شیخ الحدیث مولانا شیخ حسن جان صاحب کا بھی ہے جنہوں نے اس پُرخطر محاذ پر چلتے ہوئے اپنی جان تو گنوا دی، لیکن اپنے موقف کا برملا اظہار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہٹے۔
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے مشہور عالمِ دین، مسجد درویش اور جامعہ امداد العلوم کے صدر مدرس حضرت مولانا شیخ حسن جان مدنی 03 جنوری 1938ء کو چارسدہ کے علاقہ پڑانگ یاسین زئی محلہ میاں کلے میں شیخ الحدیث مولانا علی اکبر جان کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا سے بنیادی ریاضی اور عربی گرامر کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انجمن تعلیم القرآن میں داخلہ لیا جہاں سے بنیادی اُردو اور اسلامیات سیکھی۔ درسِ نظامی جامعۂ نعمانیہ اُتمان زئی سے مکمل کیا۔
موصوف نے ابتدائی عصری تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی جس کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 بنوں چلے گئے جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد دینی تعلیم کےلیے اُنہیں شمالی وزیرستان جانا پڑا جہاں مدرسۂ حسینیہ میں داخلہ لیا۔ ’’صرف و نحو‘‘ کی تعلیم لکی مروت سے حاصل کی۔ اس کے بعد لاہور کی معروف دینی درس گاہ جامعۂ اشرفیہ میں شیخ محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا رسول خان ہزاروی جیسے جید علما کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی اور اُن سے کتبِ حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مولانا کا سلسلۂ نسب قریش خاندان سے جا ملتا ہے جو غزوات کے سلسلے میں پہلے قندہار اور پھر لعل پورہ (افغانستان) آئے تھے۔ پھر وہاں سے جدِ امجد (دادا کے پردادا) مولانا محمد حسن قریشی چارسدہ آکر آباد ہوئے تھے۔ یہ مولانا صاحب کے خاندان کے پہلے وہ بزرگ تھے جو یہاں آئے اور چارسدہ ہی کے قبرستان میں آرام فرما ہیں۔
قارئین، مولانا شیخ حسن جان کا شمار اُن 18 خوش قسمت طلبہ میں ہوتا ہے جن کو سب سے پہلے یعنی 1962ء کو مدینہ یونی ورسٹی (سعودی عرب) میں پاکستان کی طرف سے طالب علمی کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا حسن جان مدینہ میں چار سال مقیم رہے جہاں اُنہوں نے مسجدِ نبویؐ میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ وطن واپس لوٹے، تو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک چلے گئے جہاں سے فاضلِ دینیات کی سند حاصل کی۔ 1971ء میں جامعۂ پشاور سے ایم اے اسلامیات کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد رزقِ حلال کمانے کےلیے جبئی اکوڑہ خٹک کے مڈل سکول میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ وہاں 06 مہینے گزارنے کے بعد اپنے والدِ بزرگوار کی کوششوں سے اپنے گاؤں ’’پڑانگ مڈل سکول‘‘ میں اسلامیات کے استاد کے طور پر تعینات ہوئے۔ جہاں سکول کے اساتذہ اور طلبہ کو ترجمۂ قرآن بھی پڑھاتے رہے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سکول کی ملازمت چھوڑ کر مدرسہ کی طرف آگئے اور چارسدہ کے جامعۂ نعمانیہ، کوہاٹ کے جامعۂ دارالعلوم، اکوڑہ خٹک اور مردان کے مختلف مدارس میں مسلسل پندرہ سال تک درس و تدریس سے منسلک رہے۔ بعد ازاں پشاور صدر میں واقع جامعۂ امداد العلوم (درویش مسجد) میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے علمِ حدیث پڑھاتے رہے۔ یہ سلسلہ تادمِ شہادت برقرار رہا۔ قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمان، مولانا مفتی غلام الرحمان، مولانا محمد ابراہیم، مولانا شاہ جہان اور مولانا محمد انور جیسے اکابرین دورۂ حدیث میں مولانا صاحب کے شاگردانِ خاص رہے ہیں۔
ان کے علم و فضل کا عالم یہ تھا کہ حدیث اور اسماء الرجال جیسا مشکل فن ان کے ہاتھ میں پانی بن جاتا تھا۔ کیوں کہ دو چار نہیں بلکہ پوری نصف صدی مسندِ تدریس پر بسر کی۔ سیکڑوں جید علما کے استاد ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا انداز طالب علمانہ رکھا۔ عرب و عجم کے دینی حلقوں میں ان کی شہرت بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی تھی لیکن زندگی بھر مدرس اور مبلغ ہی بن کر رہے۔
اسلامی تاریخ سے دلی لگاؤ کی وجہ سے مولانا شیخ حسن جان نے نہ صرف افغانستان، ہندوستان، ازبکستان، ایران، سعودی عرب، لبنان، شام، فلسطین، مصر، جنوبی افریقہ اور کینیا سمیت بہت سے ممالک کا سفر کیا بلکہ یہ اشتیاق انہیں بدر، احد، خندق، حدیبیہ، حنین، سیف البحر اور بیت المقدس کے علاوہ حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان، حضرت یونس اور حضرت سلمان فارسی کے مزارات پر بھی لے گیا۔ اسی طرح مولانا صاحب نے 15 مرتبہ حجِ بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی۔
قارئین، مولانا شیخ حسن جان ایک معتدل سوچ رکھنے والے عالمِ دین تھے۔ خودکش دھماکوں کی شدید مخالفت کی اور فرماتے کہ ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان کےلیے ناجایز اور حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناین الیون کے بعد جب قبایلی علاقوں اور خیبر پختون خوا سمیت ملک کے دیگر حصوں میں جہاد کے نام پر خودکش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا، تو مولانا صاحب ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے میدان میں آکر بڑے واشگاف الفاظ میں ان حملوں کو ناجایز اور خلافِ شریعت قرار دیا۔ آپ نہ صرف پاکستان میں خودکش حملوں اور معصوم لوگوں کے قتلِ عام کو غیر شرعی اور حرام قرار دیتے رہے بلکہ اپنے وسیع علمی فہم کی بنیاد پر افغان طالبان کی مزاحمت بارے بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی تقاریر میں وقتاً فوقتاً افغان طالبان کو استدعا کرتے رہے کہ مزید خوں ریزی سے بہتر ہے کہ آپ حامد کرزئی پر اعتماد کرکے ایک مشترکہ حکومت تشکیل دیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ سمیت دیگر مغربی قوتوں کےلیے افغان سرزمیں پر ٹھہرنے کا جواز ختم ہوجائے گا اور ساتھ ہی امتِ مسلمہ کا خون مزید بہنے سے بھی بچ جائے گا۔
کاش! ہمارے دیگر علما بھی اگر مولانا حسن جان کی طرح خودکش حملوں اور معصوم لوگوں کے خون بہانے کو غیر اسلامی اور ناجایز قرار دیتے، تو آج اتنے سارے بے گناہ لوگ نہ مرتے۔ اگر افغان طالبان بھی مولانا کی رائے کو نہ ٹکراتے، تو غالب امکان تھا کہ بیرونی افواج اور نام نہاد مجاہدین کے ہاتھوں لاکھوں بے گناہ افغان، کلمہ گو مسلمان بے گھر، معذور اور شہید نہ ہوتے لیکن بدقسمتی سے کچھ انتہا پسند لوگوں کو مولانا صاحب کی یہ قابلِ اصلاح باتیں ناگوار گزریں جس کا اقرار مولانا صاحب کے قریبی ذرایع خود کررہے ہیں۔
اُن ذرایع کے مطابق خودکش حملوں اور گردن زنی کو حرام قرار دینے پر جس طرح پاکستان میں بعض قوتیں مولانا صاحب پر برہم تھیں اسی طرح افغان طالبان کو بھی ان کی آرا اور تجاویز سے شدید اختلاف تھا۔ اس بیانیے اور موقف پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانے والے مولانا شیخ حسن جان صاحب کو جب دباؤ میں لانے کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہوسکیں، تو کچھ اندرونی و بیرونی قوتوں نے اس توانا آواز کو ہمیشہ کےلیے خاموش کرنے کی ٹھان لی اور 17 ستمبر 2007ء کو رمضان کے مبارک مہینے میں عین اِفطار کے وقت یہ توانا آواز خاموش کردی گئی۔
مولانا حسن جان کے بیٹے مولانا فخرالحسن کے مطابق اِفطار سے کچھ دیر قبل تین پگڑی والے کالے رنگ کے کار میں ان کے گھر آئے اور والد صاحب کو نکاح پڑھوانے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے لیکن کچھ ہی دیر بعد فون پر اطلاع ملی کہ مولانا حسن جان کو وزیرباغ پشاور میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا ہے۔
قارئین! جھٹکا تو راقم کو اُس وقت لگا جب جامعۂ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا کہ جس دن مولانا شیخ حسن جان کی شہادت کی خبر پھیل گئی، تو اسی رات جامعۂ حقانیہ میں اُن انتہا پسند حلقوں کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جن کے ہاں مولانا صاحب واجب القتل تھے۔
ضلع چارسدہ کے چھوٹے سے گاؤں پڑانگ میں پیدا ہونے والے یہ نابغہ روزگار اور باکردار عالم تقریباً 68 سال کی عمر میں اس حالت میں دنیا سے رخصت کردیے گئے کہ ایک بڑے علمی و تدریسی حلقے کو نڈھال کرگئے۔ یوں دینی، علمی، تعلیمی اور تدریسی حلقوں میں ایک صفِ ماتم بچھ گئی۔ جنازے میں عقیدت مندوں کا جمِ غفیر اُمڈ آیا جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالا جس کو اپنا بناتا ہے، تو بندوں کے دل ان کی طرف پھیر دیتا ہے ۔
قارئین! دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مولانا صاحب جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ رہے۔ انہوں نے مذکورہ پارٹی کی ٹکٹ پر 1990ء میں NA-5 چارسدہ سے الیکشن لڑتے ہوئے اصول پرست سیاست دان خان عبدالولی خان کو شکست دے کر 1993ء تک قومی اسمبلی کے رُکن رہے۔ اس کے علاوہ آپ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ اور ’’مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی‘‘ کے رکن جب کہ ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے نایب امیر بھی رہے ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا صاحب نے مادری زبان پشتو کی بطورِ نصاب رایج ہونے اور اس کی ترویج اور اشاعت کےلیے مختلف فورم پر بھرپور آواز اٹھائی۔
ان کے بقول! ’’بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینا ان کی سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تنقیدی اندازِ فکر پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم نے پشتو زبان کے بطورِ نصاب رایج ہونے کےلیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیں اور اس کےلیے آواز نہ اٹھائی، تو وہ دن دور نہیں جب اس پیارے زبان کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوجائے گا۔‘‘
قارئین! مولانا صاحب ان تمام تر خوبیوں کے علاوہ ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے جنہوں نے النظوم الاقتصادی فی الدولۃ الاسلامیہ، احسن الخبر فی مبادی علم الثر، مقدمہ علوم القرآن، احسن البیان، سفر نامہ شام (عرب ممالک)، سفر بیت المقدس، صفۃ الصلوٰۃ اور امامِ بخاری کے دیس میں، جیسی کتب لکھیں۔ اس کے علاوہ ماہ نامہ ’’الحق‘‘ اور لبنان کے شہرۂ آفاق رسالہ ’’اجتماع‘‘ میں بھی ان کے مضامین و مقالات وقتاً فوقتاً شایع ہوتے رہتے۔
قارئین! وطنِ عزیز پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف یہ بیانیہ جس نے بھی اپنایا ہے، چاہے وہ سیاست دان ہو یا عالمِ دین، کچھ طاقتوں نے اس کی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن وہ لوگ تاریخ میں امر ہوئے اور تاریخ کے اوراق میں ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا مولانا صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین!
____________________________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 04 مارچ 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: