تاریخی پسِ منظر
تحصیل اور سب ڈویژن کا صدرِ مقام “مٹہ” کسی زمانے میں غیر آباد، بنجر اور عوام الناس سے عاری تھا۔ جو “میرہ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے، تو آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اس علاقے میں انسانی تمدن کا نام و نشان نہیں تھا۔ البتہ گرد و نواح میں تاریخی اہمیت کے حامل گاؤں موجود تھے۔ جیسے مشرق میں بوڈیگرام اور باماخیلہ، مغرب میں خریڑئی، شمال کی طرف سمبٹ اور جنوب کی جانب پیر کلے واقع تھا۔ فقط گاﺅں توتکے ہی اس علاقے کے متصل جنوبی پہلوں میں واقع تھا۔ جس کے اکثریتی باشندوں کا پیشہ زراعت تھا۔ جب کہ بعض لوگ رزقِ حلال کی تلاش میں کراچی اور خلیجی ممالک میں مقیم تھے۔ مذکورہ گاﺅں اب مٹہ کی آبادی میں شمار ہوتا ہے۔ (یاد رہے کہ مٹہ ہسپتال، پولیس سٹیشن، تحصیل اور مٹہ گراؤنڈ کی زمین اہلیانِ توتکے کی دفتر(دوتر) میں بنائے گئے ہیں جو یہاں کے باسیوں نے اُس وقت کی حکومت کو رضا کارانہ طور پر دئیے تھے)۔
مٹہ اور اہلِ مٹہ کی قسمت کی کلیاں اُس وقت واہ ہوئیں جب 1951ء کو والی سوات میاں گل جہان زیب نے اپنے والدِ بزرگ وار میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کا فیصلہ معطل کر کے “نل” کے بجائے مٹہ کو تحصیل کا درجہ دیا۔ اس فیصلے سے جہاں یہاں ترقی کی شروعات ہوئی، تو دوسری طرف یہاں کی آبادی کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔
1945ء کو گورنمنٹ پرائمری سکول مٹہ کی بنیاد رکھنا باچا صاحب کا ترقی کی طرف پہلا قدم تھا۔ پھر بھی یہاں تعلیم کی مد میں اصل ترقی اُس وقت ہوئی جب 1949ء کو باچا صاحب عنانِ حکومت سے دست بردار ہوئے اور اُن کے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحق جہان زیب نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ اُنہوں نے تعلیمی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے 1950ء کو مٹہ پرائمری سکول کو مڈل کا درجہ دیا۔ جو بعد ازاں 1955ء کو بالائی سوات کے مرکز ہونے کے ناطے یہاں کی تعلیمی ترقی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہائی سکول کادرجہ دیا گیا اور حاجی عبدالرشید آف کانجو کو بطورِ صدرِ معلم (پرنسپل) تعینات کیے گئے۔
بارہ سال کے صبر آزما عرصہ گزرنے پر 1967ء کو والی سوات کو مٹہ میں ڈگری کالج بنانے کا خیال آیا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کےلیے 68-1967ء کے بجٹ میں رقم مختص کی گئی اور یوں تعمیر کا کام شروع ہوا، جو والی سوات کے عہد میں ہی پوری طرح مکمل ہوگیا لیکن 1969ء کو ریاستِ سوات کا پاکستان میں ادغام عمل میں آیا جس کے وجہ سے دو سال کے وقفے سے 1971ء کو کالجِ ہٰذا میں باقاعدہ کلاسوں کا اجرا ہوا۔
باچا صاحب کے زمانے میں مٹہ میں حفظانِ صحت کےلیے ایک معمولی ڈسپنسری موجود تھی، تاہم والی سوات نے 1950ء کو مٹہ ڈسپنسری کی اپ گریڈیشن کی منظوری دے کر اس میں باقاعدہ ڈاکٹر حبیب الرحمان صاحب کو بطورِ MS تعینات کیا۔ اب یہ ہسپتال بنیادی اہم ضروریات اور سہولیات کے ساتھ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ذاکر خان شہید) کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
ادغامِ سوات کے بعد رحیم شاہ ایڈوکیٹ کے والدِ بزرگ وار جناب فقیر شاہ آفریدی مٹہ میں سب سے پہلے وکیل تھے۔ جن کی اولاد اج بھی مٹہ میں رہائش پذیر ہے۔ 1969ء کے بعد جب میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی، تو مٹہ پریس کلب کے سفید ریش ممبر حاجی نورالہادی پہلے صحافی بنے جن کا کہنا ہے کہ: ”میں 71 -1970ء کو مٹہ میں شعبہ صحافت سے منسلک ہوا ہوں“۔ نورالہادی صاحب صحافت کے ساتھ ساتھ یہاں کے پہلے بُک سیلر بھی تھی۔ یاد رہے کہ حبیب ملنگ مرحوم آف تنگی کا شمار بھی اولین صحافیوں اور بک سیلرز میں ہوتا ہے۔
1988ء کو وزیرِ اعلا NWFP (خیبر پختون خوا) فضلِ حق صاحب نے تحصیل مٹہ میں پولیس سٹیشن کی منظوری دے دی اور 23 فروری 1988ء کو مشرف خان بطورِ SHO مٹہ تھانہ تعینات کیے گئے۔ صرف چھے سال گزر جانے کے بعد یعنی 1994ء کو وزیرِ اعلا افتاب احمد شیرپاﺅ نے تحصیل مٹہ کو سب ڈویژن کا درجہ دے دیا جس سے ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آگئی اور یہ علاقہ پلک جھپکتے میں بامِ عروج تک پہنچ گیا۔
جب مٹہ میں تعمیرات شروع ہوئیں، تو گاﺅں شیرپلم کے حاجی شاہ پرستان (مرحوم) نے 1969ء کو یہاں ایک مارکیٹ بنانے کا عزمِ مصمم کیا اور 1970ء کو 37 دکانوں پر مشتمل یہ مارکیٹ مکمل ہوا جسے مٹہ میں سب سے پہلے مارکیٹ ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ حاجی صاحب کی رحلت کے بعد یہ مارکیٹ اب ایوب فٹ بال کلب مٹہ کے سابق مایہ ناز لفٹ آﺅٹ، حبیب اللہ خان اور ان کے بھائیوں کی ملکیت ہے۔ مٹہ بازار میں جب کاروبار کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے جنریٹر مرمت کرنے والے مستری محمد خان (مرحوم) نے اسی نوعیت کی پہلی دکان کھول دی۔ اس دکان کی جگہ اب کشمیر عباسی بیکری براجمان ہے جب کہ محمد خان مستری کے بیٹے اب بھی مذکورہ پیشے سے منسلک ہے۔ محمد (مرحوم) کو مٹہ میں سب سے پہلے مستری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حاجی فتح گل پاچا مٹہ بازار میں سب سے پہلے گھڑی ساز ہیں۔ آج کل وہ مٹہ تحصیل کے سامنے بیٹھ کر گھڑیوں کی مرمت کرتے ہیں۔ مٹہ بازار میں کریانہ سٹور سب سے پہلے حاجی شانباز خان صاحب نے کھولا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے وہ دکان نہ چلا سکے۔ مٹہ بازار میں میاں قاسم کاکا آف بیدرہ سب سے پہلے فوٹو گرافر تھے لیکن اب ان کی دکان موجود نہیں ہے۔ پھر بھی وہ مٹہ بازار کے چیف آرگنائزرکی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ رحیم داد صاحب آف بانڈئی مٹہ میں سب سے پہلے ریڈیو ساز تھے، ان کی دکان بھی اب ختم ہوچکی ہے۔ مٹہ بازار میں سب سے پہلے لوہار حاجی محمد رحمان صاحب تھے جو اب بھی ضعیف ہونے کے باوجود دکان چلا رہے ہیں۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی، تو ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے 1978ء کو یہ دکان کھولی تھی“۔ یہ دکان اب بھی تحصیل مٹہ کے عوام میں لوہاری کی میدان میں سب سے زیادہ مشہور ہے جو ”اشاڑی لوہاران“ کے نام سے منسوب ہے اور بازار کے وسط میں ذکریا مسجد کے قریب واقع ہے۔
مرکزی شہر کی حیثیت سے مٹہ کی آبادی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کے منازل طے کررہی ہے۔ یہاں تک کے ایک گنجان آباد ٹاﺅن اور بڑے بازار کی شکل میں اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ مٹہ بازار میں اس وقت تقریباً سو سے زائد مارکیٹیں اور 10 سے 11 ہزار کے قریب دکانیں موجود ہیں۔
ملکی سیاست میں مٹہ کا کردار
مٹہ حلقہ PK-09 (سابقہ PK-84) کا مرکز ہے، ساتھ ہی اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے جو بھی ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی صوبائی یا وفاقی وزارت ضرور ملتی ہے۔ موجودہ وزیرِ اعلا خیبر پختون خوا محمود خان کا تعلق بھی تحصیل مٹہ سے ہیں اور آپ مذکورہ حلقہ سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ اس طرح پختون قوم پرست راہ نما اور سیاسی مبارز خان محمد افضل خان لالا، فتح محمد خان اور شجاعت علی خان بھی یہاں سے وفاقی وزیر و سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں۔
ادبی میدان میں مٹہ کا کردار
قومی زبان یعنی اُردو یقیناً مملکتِ خداداد کے چاروں صوبوں کی روحوں کو باہم پیوستہ کرنے والی زنجیر ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے شعرا و ادبا اس کی تزئین و آرائش میں بھرپور حصہ لے کر اپنی انفرادیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس ضمن میں وادئ سوات کی تحصیل مٹہ کا کردار بھی لائقِ تحسین ہے۔ یہاں کے متعدد دانشوروں نے اُردو زباں و ادب کی خدمت کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ جن میں چند نابغہ شخصیات کا ذکر بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔
☆ عبدالحکیم عرف سور حکیم ولد لطیف خان قوم ماما خیل ساکن برہ درش خیلہ نے ریاستی دور میں ایک مختصر کتابچہ بعنوانِ “ریاستِ سوات اور سیاسیات” اُردو زبان میں لکھ کر شائع کیا۔ یہ تحریر لسانی و ادبی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے سیاسی معلومات کے حوالے سے بھی ایک شاہکار ہے۔
☆ خیرالحکیم حکیم زئی ایک اعلا تعلیم یافتہ، ادبی، سیاسی اور قانون دان ہیں۔ جنہوں نے پشتو زبان میں متعدد تخلیقی کتب تصنیف کیے ہیں۔ ان کے اردو کتب میں “تاریخ بالائی سوات” اور “پشتو کہاوتیں” شامل ہیں۔
☆ پیر زادہ ولد عمر خان موضع گھٹ گھڑئی شیرپلم، اُردو زبان میں 2003ء کو ایک ناول “آدھی خواہش” کےنام سے شائع کی۔ اس کے علاوہ ان کے کتب میں “انقلاب تک” اور “سیاست کی دنیا میں” کے ناموں سے دو ناول اور ایک افسانوی مجموعہ بھی شامل ہے۔
☆ پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں شعبہ پشتو میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پشتو زبان میں تحقیقی و تخلیقی تصانیف کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی پختون ثقافت کے موضوع پر “پشتونولی، عظیم قوم کی عظیم ثقافت” کے نام سے ایک مقالہ شائع کرچکے ہیں۔ جب کہ وادی کے ناگفتہ بہہ حالات اورشورش سوات پر بھی ایک کتاب بعنوانِ “سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات” لکھی ہے، جو مقبولِ عام و خاص ہے۔
☆ حضرت مولانا رشید احمد، گاؤں چینالہ برہ درش خیلہ میں حافظ محمد جمیل (مرحوم) کے گھر میں پیدا ہوئے۔ مروجہ دینی علوم کے حصول کے بعد درس و تدریس اور سیاست میں مصروف عمل رہے۔ فی الوقت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شعبہ حدیث، منطق و فلسفہ کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کئی عربی اور اُردو کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں کچھ شامل نصاب بھی ہیں۔ عربی زبان میں “معارف الکافیہ” اور ‘سیف المسلول فی بحث الحاصل والمحصول و ھل السلف علیہ السلف” جیسے شاہکار کتب ان ہی کے تصانیف ہیں۔ آپ نے اُردو زبان میں دو تحقیقی کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ کیے ہیں جو “دفاع درس نظامی” اور “مغربیت اور صراط مستقیم” کے ناموں سے موسوم ہیں۔
☆ ساجد علی خان ابو تلتاند ساکن برہ درش خیلہ نے وادئ سوات اور بالخصوص برہ درش خیلہ کے سیاست، سماج، رسم و رواج، روایات، ثقافت، تاریخ، تہذیب، اور اہم سیاسی و سماجی شخصیات پر حال ہی میں ایک جامع کتاب بعنوان “درش خیلہ (سوات) تہذیب کے دریچے میں” لکھی ہے۔ جس سے تاریخ کے طلبہ و طالبات استفادہ کر سکتے ہیں۔ موصوف ایک کالم نگار کے حیثیت سےبھی اپنے صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں۔
☆ پروفیسر خوبان صاحب آف توتکے مٹہ نے بھی شعبہ نباتات میں 2 تحقیقی کتب انگریزی زبان میں لکھے ہیں جو مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی ہے۔ جب کہ ایک کتاب ابھی طبع کی مراحل سے گزر رہی ہے۔
واضح رہے کہ تحصیل مٹہ کے دوسرے اہل علم بھی مختلف اخبارات و رسائل میں سیاسی، سماجی و ادبی کالم، مقالے اور مضامین لکھ کر مصروف عمل ہیں۔
تحصیل مٹہ کے صحت افزا مقامات
وادئ سوات جو وطنِ عزیز پاکستان کے خوب صورت اور باوقار جسم میں چہرے کے مانند ہے۔ مذکورہ وادی خوب صورت دروں، صاف و شفاف دریاؤں اور زرخیز میدانوں کے باعث پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہلاتا ہے۔ وادئ سوات محض کالام، بحرین، مالم جبہ وغیرہ کا نام نہیں، بلکہ اس کا گوشہ گوشہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ مثلا تحصیل مٹہ کے کچھ علاقے اپنے بے مثال حسن، خوب صورت نظاروں اور صحت افزا ماحول سے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ جن میں گبین جبہ، جاروگوں آبشار، بالاسور ٹاپ، جاروگو سر، سلا تنڑ اور چاڑما وغیرہ ایسے مقامات ہیں، جو اونچے اور برفیلے پہاڑوں پر واقع ہیں۔ یہاں گرمیوں میں موسم خوش گوار اور معتدل رہنے کے ساتھ ساتھ اونچی دیو قامت درخت، متنوع جڑی بوٹیاں اور جھاڑیاں اور جنگلی پھولوں سمیت خوب صورت سبزہ زار اور شاداب میدان بھی موجود ہیں۔ ہرونئی اور بارووئی کی نہری چشمے یہاں سے پھوٹ کر دریائے سوات میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لاجواب قدرتی حسن کے حامل اس علاقے کے دیگر سیاحتی مقامات “خان آباد” (باماخیلہ)، “جالے گودر اشاڑے” اور “باغ ڈھیرئی” دریائے سوات کے کنارے واقع ہے، جن پر اگر توجہ دی جائے، تو حکومت وقت سیاحت کی مد میں کافی زر مبادلہ کماسکتی ہے۔
تعلیمی میدان میں مٹہ کا کردار
سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ مٹہ نے ایسی ہستیوں کو بھی جنم دیا ہے، جنہوں نے ملکی و بین الاقوامی تعلیمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہی نابغہ شخصیات میں سے سیرئی استاد کے دو بیٹے پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد (مرحوم) سابق وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، اور پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد وائس چانسلر گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔
بیورو کریسی میں اہلیانِ مٹہ کا کردار
گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ سے عین متصل واقع معصوم شہید کالونی سے تعلق رکھنے والے داود خان صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن خیبر پختون خوا کے حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی سے جنم لینے والی مسائل
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہاں کئی مسائل نے جنم لیا ہے، جن میں آلودگی، گندگی، نکاسی آب، ناجائز تجاوزات اور بجلی کے مسائل سرفہرست ہیں۔ آبادی کے اس بے تحاشا و بے ترتیب اضافے اور خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی صورت میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔
مثلاً پینے کے صاف پانی کی دست یابی، نکاسی آب اور بجلی کی فراہمی و دیگر مسائل نے سر اُٹھایا ہوا ہے۔ ایک بڑے بازار کے حامل اس علاقہ کے دکان دار حضرات، مسجدوں اور کنوؤں سے پینے کا صاف پانی بھر کر لانے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح یہاں کا دوسرا بڑا مسئلہ نکاسی آب کا بھی ہے۔ جب ہمارے لوگ تعمیراتی کام کرتے ہیں، تو اپنی جائداد میں ایک چھوٹی سے نالی تعمیر کرنا تک گوارہ نہیں کرتے۔ اسی طرح ندی نالوں پر چھت کر کے آبادی کرتے ہیں۔ پھر جب بارش ہوتی ہے، تو مٹہ شہر کی تمام سڑکیں تالاب جیسا منظر پیش کرتی ہیں۔ جس سے نہ صرف پیدل چلنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ گاڑیوں کی آمدورفت میں بھی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح یہاں حکومت نے پیدل چلنے والے لوگوں کےلیے جو فٹ پاتھ بنائے ہیں، ان پر دوکان داروں، گاڑیوں، ریڑی والوں اور خوانچہ فروشوں کے ناجائز تجاوزات کی بھر مار ہے۔ ہر دکان دار دکان کا سامان نکال کر اسے فٹ پاتھ پر رکھ دیتا ہے۔ ہماری انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے تماشائی بننے پر اکتفا کیے ہوئی ہے۔ جب کبھی کبھار انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف آپریشن کرتے بھی ہے، تو ہمارے دکان دار حضرات دکانیں بند کر کے ان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، اور اہلِ کاروں کو کاروائی کیے بغیر لوٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ دراصل وہ ان ناجائز تجاوزات کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں۔
اس کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ گندگی کا ہے۔ مٹہ بازار میں جابجا عوام کی پھیلائی ہوئی گندکی نے یہاں سب کا جینا حرام کردیا ہے۔ ہمارے دکان دار حضرات کے پاس کوڑہ جمع کرنے کےلے مناسب جگہ نہیں، اس لیے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی دکانوں کا سارا کچرا سڑک کے کنارے پھینک کر گندگی کا ایک ڈھیر بنادیتے ہیں۔ میونسپل کمیٹی والوں کو اللہ سیدھی راہ دکھائے، جب وہ مذکورہ گندگی ٹھکانے لگانے آتے ہیں، تب تک گند سڑک پر پھیل چکا ہے۔
مسائل کے اس انبار میں ایک اور بڑا مسئلہ بجلی کا ہے۔مذکورہ مسئلہ دیگر ذکر شدہ مسائل سے کم اہمیت کا حامل نہیں۔ کیوں کہ یہ صرف تحصیلِ مٹہ کا نہیں بلکہ پورے ضلع سوات کا مسئلہ بھی ہے۔ بجلی کی بات کچھ ہوں ہے کہ اول تو یہ گرمیوں میں ہوئی نہیں، اور اگر ہو بھی، تو برائے نام ہوا کرتی ہے۔ اس کا انتظام اتنا ناقص ہے کہ معمولی آندھی سے بھی کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ طول پکڑ لیتی ہے۔ کیوں کہ ترسیلی تار خراب اور ٹیڑھے کھمبے خستہ حال ہیں۔ بس یہ ایک آفت ناگہانی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ واپڈا والے دن میں کئی مرتبہ چکر لگاتے ہیں، مگر عملی طور پر کچھ کرتے نہیں۔ اس طرح بجلی کا اوور لوڈنگ بھی ایک مسئلہ ہے۔ مٹہ بازار میں عام طور پر گھریلوں صارفین کےلیے جو ٹرانس فارمر لگادیے گئے ہیں، وہ عام طور پر کمرشل استعمال ہوا کرتے ہیں۔ ضروری امر یہ ہے کہ مارکیٹوں کےلیے الگ کمرشل ٹرانس فارمر کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ گھریلوں صارفین کےلیے مشکلات نہ ہوں۔
قارئین! مَیں جانتا ہوں کہ ان تمام مسائل پر قلم کشائی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ہماری انتظامیہ، حکومت اور اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انتظامیہ حکومت اور اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انتظامیہ اور حکومت اندھی، بہری اور گونگی ہوچکی ہے۔ اس کے کارپرداز کچھ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ ہی سکتے ہے۔ عوامی منتخب نمائندے اسمبلیوں میں جاکر خوب عیش وعشرت سے پانچ سال گزارتے کو ترجیح دیتے ہیں، اور پھر الیکشن کے وقت حلقے میں آکر دوسرے سیاست دانوں کو مناظرے کا چیلنج دیا کرتے ہیں کہ آئیں، دیکھتے ہیں کہ آپ نے زیادہ کام کیا ہے یا ہم نے…؟
ہمارے سیاست دان ٹوٹے پھوٹے کا موں پر اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں اور اسے عوام پر ایک احسان سمجھتے ہیں۔ ان نادان لوگوں کو یہ شعور نہیں ک عوام کی فلاح وبہبود کےلیے کام کرنا ان کا فرض ہے۔ کیوں کہ عوام ہی نے اُنہیں اپنے دیرینہ مطالبات منوانے اور اپنی مسائل کے حل کےلیے اسمبلی میں بھیجا تھا۔
قارئین! نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں نے بھی ہماری زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی۔ بس چور پولیس کا کھیل جاری ہے اور بس۔ اب تو خیر سے وزیرِ اعلا خیبر پختون خوا کا تعلق بھی تحصیلِ مٹہ سے ہے۔ ان کی طاقت بھی شاید تحصیلِ مٹہ کے کام نہ آئے۔ سوچتا ہوں کہ کہا ہیں آج وہ لوگ جو مٹہ کو رول ماڈل بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے۔ میرا تو اپنے شہر کی یہ حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آخر تحصیل مٹہ کی مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کےلیے کون مسیحا بن کر آئے گا…؟ کیوں کہ تحصیل مٹہ تبدیلی کی حکومت میں آج بھی حقیقی تبدیلی کی منتظر ہے۔ وزیرِ اعلا موصوف کو آج موقع ملا ہے کہ وہ نہ صرف مٹہ بلکہ پورے سوات کی خدمت کرے، مگر بسا اے آرزو کہ خاک شدہ!
اہلیانِ مٹہ کو حاصل سہولیات
نادرا آفس، پیسکو آفس، سی اینڈ ڈبلیو آفس، سول و سیشن کورٹ، تحصیل دار آفس، پولیس سٹیشن، PTCL ایکس چینج، پوسٹ گریجویٹ کالج فار بوائز اینڈ گرلز، پیسکو سب آفس، ریسکیو1122، فائیر بریگیڈ، دو عدد گراﺅنڈز، ڈاک خانہ، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز، دینی مدارس اور پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز، ویٹنری ہسپتال سمیت کئی پرائیویٹ ہسپتال بھی موجود ہیں۔
قارئین! مٹہ سے متعلق تاریخی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر ضرور پہنچا ہوں کہ جو رونق اور چہل پہل آج ہم مٹہ میں دیکھ رہے ہیں یہ کسی زمانے میں ایک ویرانہ تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک گنجان آباد اور ترقی یافتہ علاقے میں بدل گیا۔ ربِ کائنات سے دست بہ دعا ہوں کہ ترقی کا یہ سفر اسی طرح جاری و ساری رہے، آمین!
شیئرکریں: