صوبہ خیبر پختون خوا کے پُر بہار وادی ضلع شانگلہ کے مردم خیز اور عطر بیز گاؤں لیلونئی نے پختون قومی تاریخ کے دو ایسے قوم پرست شخصیات کو جنم دیا ہیں، جنہوں نے جنون کی حد تک پختونوں کی خود مختاری اور اُن کی تاب ناک زیست و زندگی سے والہانہ محبت کی ہے اور محبت کی اس راہ میں سب کچھ جھیلنے اور بہت کچھ تیاگ دینے کےلیے ہمیشہ کمر بستہ رہے۔
ان عظیم شخصیات میں سے ایک ماسٹر خائستہ محمد تھے، جنہوں نے پختون قوم کی سربلندی اور خود مختاری کےلیے اپنی جوانی گنوانے کے ساتھ ساتھ اپنی خواتین کی بے حرمتی کے تازیانے دل پر سہے اور اس احساس کے ساتھ 23 دسمبر 1987ء کو اپنے وطن کی مٹی اوڑھ کر ہمیشہ کےلیے روٹ کر چلے گئے۔
مذکورہ دھرتی کے دوسرے فرزند اور سربکف مبارز ڈاکٹر خورشید عالم تھے، جو 14 اپریل 1944ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد کے بنائے ہوئے مدرسے میں پائی جب کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہان زیب کالج سیدو شریف سے ایف ایس سی کرنے کے بعد 1968ء کو کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ یہاں کے قیام نے ان کی قومی اور سیاسی فکر کو جلا بخشی۔ علم کے یہ پیاسے مزید تعلیم کےلیے 1975ء کو لندن چلے گئے اور انستھیزیا میں سپیشلائزیشن کرنے کے بعد 1985ء کو مذکورہ شعبے میں لندن رائل کالج آف میڈیسن سے فیلوشپ حاصل کی اور 1987ء کو وطنِ عزیز کی خدمت کےلیے واپسی کی اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں ملازمت شروع کی۔
دورانِ ملازمت صاف گوئی، جرأتِ اظہار اور سیاسی سوچ کی وجہ سے ان کےلیے مشکلات پیدا کی گئیں جس سے وہ دل برداشتہ ہو کر پہلے انگلینڈ اور بعد ازاں سعودی عرب چلے گئے۔ پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے مذکورہ ممالک میں عرصۂ دراز تک مقیم رہے۔ چند سال قبل مسافری کی زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے وطن واپس آئے اور آخری دم تک رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں پیشہ ورانہ اُمور سرانجام دیتے رہے۔

ڈاکٹر خورشید عالم نے اپنی قومی و سیاسی زندگی کا خلاصہ اپنی ایک مختصر تحریر میں یوں لکھا ہے

ڈاکٹر خورشید عالم کی سیاسی اور ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طفلی میں ہوا تھا۔ آپ ابھی ساتویں جماعت میں تھے کہ اجمل خٹک کی انقلابی کتاب ”د غیرت چغہ” ان کی نظر سے گزری۔ یہ انقلاب کا وہ صحیفہ تھا جو پختون نوجوانوں میں زدِ زباں رہا۔ کم سن خورشید عالم اس رزمیہ گوسپل کے طلسم میں کھو گئے اور پھر ساری عمر اجمل خٹک کے سکول آف تھاٹ کے سرگرم شاگرد رہے۔
آپ نے ادبی میدان میں پہلی طبع آزمائی افسانہ نگاری سے کی۔ اُن کی تصانیف میں”اجمل خٹک کو خطوط کا مجموعہ”، “اپنی سیاسی زندگی کا نچوڑ ” اور “د مرگ نہ مخکی سو ٹکی” نامی کتب شامل ہیں۔ جس کا انگریزی ترجمہ بھی انہوں نے “A Few Words Before the End” کے نام سے کیا ہے۔ ان کی آخری کتاب “The Tip of Iceberg” ایک سیاسی گائیڈ ہے، جس میں اُنہوں نے لگی لپٹی بغیر اپنی سیاسی نظریات اور پختونوں کے منزلِ مقصود پر روشنی ڈالی ہے۔
اجمل خٹک نے ڈاکٹر خورشید عالم کو جذبات کے لحاظ سے پختونولی کا مجنون جب کہ زبان کے لحاظ سے افلاطون قرار دیا ہے۔
لندن میں میڈیکل سپیشلائزیشن کے دوران ڈاکٹر خورشید عالم نے چند پختون قوم پرست اور روشن فکر لوگوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں پختونوں اور دیگر چھوٹی محکوم قوموں کے حقوق کی وکالت کی اور ان کے ساتھ پنجابی اسٹبلشمنٹ کی صریح زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ آپ لندن میں نیشنل عوامی پارٹی کا انٹرنیشنل ڈیسک بھی چلاتے رہے اور اپنے ھم خیال پختون، بلوچ اور سندھی جوانوں کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹک پاکستان کے نام سے انگریزی میں ایک جریدہ بھی جاری کیا، جس میں پاکستان میں جمہوریت کے منافی اقدامات اور مظلوم قوموں کے ساتھ بدسلوکی اور بحالی سیاست پر مضامین شائع ہوتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب باچا خان کی تعلیمات اور عملی شخصیت سے کافی متاثر تھے۔ آپ خود کہتے تھے کہ “میں باچا خان کے نظریے اور فلسفے کا گرویدہ ہوں، لیکن میں کوئی اندھا مقلد نہیں ہوں بلکہ میں منطق اور دلیل سے تسلیم کرتا ہوں کہ باچا خان کا نظریہ اور راستہ پختونوں کی نجات کا واضح راستہ ہے۔ جب ہر نئے دن کا سورج چڑھتا ہے تو اتنا ہی میرا یقین توانا ہوتا جارہا ہے کہ باچا خان کے خواب میرے خواب ہیں اور ان کی فکر میرے ذہن میں رچ بس گئی ہے۔”
باچا خان خود بھی موصوف کو انتہائی پیار سے “کوہستانی” بُلا کر بات کیا کرتے تھے۔ اکثر جلال آباد میں باچا خان اور کابل اجمل خٹک کے پاس جاتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ ولی خان کی سیاسی بصیرت اور حق گوئی سے بھی بےحد متاثر تھے، جس کی وجہ سے ولی خان ڈاکٹر صاحب کے سیاسی اور قومی مشوروں کو بہت وقعت دیتے تھے۔
ڈاکٹر خورشید عالم 1973ء تک خوش بین رہے کہ پاکستان میں فیڈرلسٹ طرزِ حکومت قائم ہو جائے گی اور قوموں کا قومی، سیاسی اور معاشی استحصال ختم ہو جائے گا، لیکن خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ میری خوش فہمی تھی۔ جب پاکستان میں اشرافیہ نے جمہوریت میں نقب ڈال کر فاطمہ جناح کو ہرایا، 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو ملیامیٹ کیا گیا، پختونوں کی صوبائی حکومتیں تحلیل کی گئیں اور لیاقت باغ میں 23 مارچ 1973ء کو پختونوں پر سرکاری سیکورٹی ایجنسی کے ہاتھوں گولیاں چلیں، تو پاکستان میں پختونوں کا مستقبل مجھے مخدوش نظر آیا۔
آپ پختونوں اور بلوچوں کو سیاسی پارٹنرز تسلیم کرتے تھے اور ان کے درمیان باہمی ہم کاری کو وقت کی ضرورت تصور کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کابل کے حالیہ سقوط پر وہ کتنا روئے ہوں گے…؟
قارئین! پختونوں کی قومی کمین گاہ میں ایک اور بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ 12 اکتوبر 2021ء کو ایک ایسا جسم ساکت اور ایک ذہن ٹھنڈا پڑ گیا جس سے پختونوں کی قومی، فکری و عملی تحریک حرارت لیتی رہی۔ شاید ان کے مضمحل جسم اور مضطرب ذہن کو اب سکون نصیب ہوا ہوگا کیوں کہ دورانِ حیات آپ پختونوں کی ازلی بدحالی، بے حِسی اور بدترین حالات کے احساس کی سنگ باری کی زد میں رہے۔ یہ عظیم شخصیت اور پختون قوم پرست مبارز اس دارِ فانی سے منہ موڑ کر 77 سال کی عمر میں رخصت ہوکر چلے گئے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
شیئرکریں: