ممتاز ماہرِ تعلیم، سیاست دان، اسلامیہ کالج پشاور کے بانی اور سرحد کے سر سید “سر صاحب زادہ عبدالقیوم خان” 1863ء کو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے ضلع صوابی کے گاؤں ٹوپی میں لودھی خاندان کے ایک مذہبی گھرانے میں صاحب زادہ عبدالروف کے ہاں پیدا ہوئے۔
والدہ کے انتقال کے وقت صرف تین سال کے تھے۔ ابھی دس سال کے تھے کہ باپ کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد بہن ان کو اپنے ماموں سید احمد باچا کے گھر پشاور لے گئی۔ ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ سے حاصل کی، جہاں ان کے چچا معلم تھے۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے 1880ء کو میونسپل بورڈ مڈل سکول پشاور میں داخلہ لیا۔ جہاں سے فراغت کے بعد ایڈورڈز مشن ہائی سکول چلے گئے اور 1883ء کو انگلش مڈل سکول کا امتحان پاس کیا۔
ستمبر 1886ء کو نائب تحصیل دار کی پوسٹ کے لیے امتحان دیا اور پہلی ہی کوشش میں کامیابی نے آپ کے قدم چھومے۔ مذکورہ عہدے پر کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد سیٹل منٹ ورک کی تربیت کے لیے درخواست دیتے ہوئے کمشنر کے دفتر میں تعینات ہوئے۔ جہاں بطورِ مترجم انگریزوں اور مقامی لوگوں کے مابین رابطے کا کام سرانجام دیتے رہے۔
1888ء کو غیر سنجیدہ جرائم کے لیے سزا دینے والی مہم بلیک ماؤنٹین کا حصہ بنے جس میں مختلف سرکاری اداروں کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ بھیجنے کا کام ان کے ذمے تھا۔ اس مشن کی کامیابی پر ان کے کردار کو سراہتے ہوئے تاجِ برطانیہ نے انہیں چاندی کے تمغے ہزارہ 88 سے نوازا۔
آبادکاری کی تربیت کے لیے 1890ء کو سیالکوٹ بھیجے گئے۔ بعد ازاں یک بعد دیگرے کئی انتظامی قلم دان سنبھالے جن میں تحصیل دار، ہزارہ کے چیف پولی ٹیکل ایجنٹ، ریونیو اسسٹنٹ، ٹریژری آفیسر، اسسٹنٹ کمشنر، سپرنٹنڈنٹ آف کمشنر، اسسٹنٹ پولی ٹیکل ایجنٹ خیبر اور چترال، 1891ء سے 1919ء تک خیبر ایجنسی میں خدمات سر انجام دینے کے بعد خیبر کے پولی ٹیکل ایجنٹ کے طور پر ترقی ملی۔
1893ء کو افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے دور میں انڈو افغان باؤنڈری، افغانستان اور برٹش انڈین ایمپائر کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کے لیے رائل کمیشن کا حصہ بنے۔ مذکورہ کمیشن میں افغانستان سے صاحب زادہ عبداللطیف خان جب کہ گورنر سردار شیر دل خان نے امیر عبدالرحمان خان کی طرف سے نمایندگی کی۔
1919ء کو سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوتے ہوئے باقاعدہ عملی سیاست کے میدان میں آئے۔ 1921ء کو جب تاجِ برطانیہ نے جارج روز کیپل کو متحدہ ہندوستان کے لیے وائسرائے نام زد کیا، تو انہوں نے عبدالقیوم خان کو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا ) کا چیف کمشنر بنانے کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے 1924ء کو انہیں مرکزی مجلسِ قانون ساز کا غیر سرکاری رُکن نام زد کیا گیا اور 1932ء تک بطورِ ممبر اس عہدے پر فایز رہے ۔
وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کی نمایندگی کی۔
نومبر 1928ء کو انہیں صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا)، دہلی اور اجمیر کے تعلیمی حالات کا جایزہ لینے کے لیے کمیٹی کا رُکن بنایا گیا جس نے 1930ء کو ایک جامع رپورٹ تاجِ برطانیہ کو پیش کی۔ رپورٹ کی عمومی سفارشات میں خواتین کی تعلیم اور نصاب میں ضروری تبدیلیوں پر توجہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
قارئین، تقسیمِ ہند سے قبل اس دور کے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جہاں مسلمان اکابرین اور سیاسی و سماجی راہ نما حصولِ تعلیم پر زور دے رہے تھے وہاں صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے بھی اپنے صوبے کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے عملی میدان میں قدم بڑھایا اور پشاور میں اسلامیہ کالج کی سنگ بنیاد رکھی جسے 2008ء کو یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
1932ء میں جب صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا ) کو پہلی بار صوبے کی عارضی حیثیت ملی، تو عبدالقیوم خان کو منتقل شدہ تمام محکموں کا پہلا اور واحد وزیر مقرر کیا گیا۔ انڈین ایکٹ 1935ء کے بعد جب صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کو ایک بااختیار صوبے میں تبدیل کیا گیا، تو 1937ء کو پہلی بار صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس لیے صاحب زادہ عبدالقیوم خان یکم اپریل 1937ء کو صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے پہلے وزیرِ اعلا منتخب ہوئے۔ تاہم یہ حکومت 6 ماہ سے زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ کیوں کہ انڈین نیشنل کانگریس اور خدائی خدمت گاروں نے ستمبر 1937ء کو ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ منظور کرتے ہوئے ان کی جگہ ڈاکٹر خان صاحب (باچا خان کے بڑے بھائی) کو وزیرِ اعلا منتخب کیا۔
ان کی خدمات میں ملاکنڈ تھرمل پاؤر پلانٹ کے لیے 2.4 ملین روپے کی فراہمی، پشاور میں گورنمنٹ ٹریننگ سکول کا قیام، صوبے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا خاتمہ اور 1935ء کے انتظامی سرکلر کی منسوخی (جس نے سرکاری امداد یافتہ سکولوں میں اُردو یا انگریزی کو لازمی زبان بنایا تھا) شامل ہیں۔
ان کی ناقابلِ فراموش خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے تقسیمِ ہند کے بعد حکومتِ پاکستان نے ان کے نام پر متعدد یادگاریں بنائیں۔ جن میں اسلام آباد کے سیکٹر I-8 میں صاحب زادہ عبدالقیوم روڈ، اسلامیہ کالج پشاور میں قیوم منزل، یونی ورسٹی ٹاؤن پشاور میں صاحب زادہ عبدالقیوم خان روڈ اور صاحب زادہ عبدالقیوم خان آثارِ قدیمہ میوزیم پشاور یونی ورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔
سر صاحب زادہ عبدالقیوم خان وزارتِ اعلا کی منصب سے برطرف ہونے کے 92 دن بعد یعنی 04 دسمبر 1937ء کو انتقال کرگئے۔ یہ عظیم شخصیت اپنی 100 سالہ قدیم حجرہ سے ملحقہ مسجد میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مدفن ہیں۔ اللہ تعالا ان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
_____________________________
محترم قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی یکم جولائی 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔