آج کل اگر دیکھا اور سوچا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ دور تعلیم کا ہے۔ پوری دنیا معیاری تعلیم کے انڈیکیٹرز پر لگی ہوئی ہے۔ معیاری تعلیم کا دوسرا مقصد وہ نتائج ہیں جن سے کوئی معاشرہ ترقی کرسکے اور اس میں خوش حالی آسکے۔ اس لیے انسانی تاریخ میں ابتدا ہی سے تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی اشاعت میں اختلاف رہا۔ انسانی تاریخ پر اگر سنجیدگی سے نگاہ ڈالی جائے، تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسی علم نے کتنی بڑی ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ یونان کی گلیوں میں گھومنے والے سقراط نے جب اس کا بیڑا اٹھایا، تو افلاطون، ارسطو اور دیگر اہم شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے سیاست سے لے کر فلکیات کی دنیا تک انقلاب برپا کر دیا۔ اسی علم نے جب مذہبی رُخ اختیار کیا، تو عرب کی سرزمیں پر ایسی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں، جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی، جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا حیران ہوکر رہ گئی۔
لیکن آج کے دور میں اگر تعلیم پر گفتگو کرنے کےلیے کوئی دانشور میدان میں آتا ہے تو ان کو ماضی کی علمی صورتِ حال کی تاریخ اور موجودہ تعلیمی نظام کی کمیوں پر نوحۂ کناں ہونا پڑتا ہے۔ کیوں کہ مملکتِ خداداد میں اس وقت تعلیم جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس کا تو نہ پوچھنا ہی بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کے دو کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جا رہے، آدھے سے زیادہ تو سکول میں داخل ہوتے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ ڈر، خوف اور نا سمجھی کی وجہ سے تعلیم کا جو حشر ہم نے کیا، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ لڑکیوں کی تعلیم کا تو نہ پوچھنا ہی بہتر ہے کہ چار میں تین تو سکول نہیں جا رہیں اور یونیورسٹی تک صرف چار فیصد لڑکیاں پہنچ پاتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہر حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد تعلیم کو درست سمت لے جانے کی بلند و بالا دعوے کرتے تھکتے نہیں، مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں۔
قارئین! وہ علم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں، بالکل کافی نہیں۔ کیوں کہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہا ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت دے پا رہا ہے۔ ہم تعلیم حاصل کرکے بھی اُسی پرانی بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہیے تھا۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلا تعلیم یافتہ ہو کر بھی اُسی ساس بہو کے فرسودہ نظریے کے ساتھ چلتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو آپ دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دیں، وہ وہی گالی بھری زبان لیے پھرتے ہوں گے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہوں گے۔ کیوں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہم جس طرح تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح واپس نکل آتے ہیں۔
قارئین! موجودہ تعلیمی نظام اپنے وجود میں ہول ناک قسم کی خامیاں رکھتا ہے، جس کے پیشِ نظر تحریر میں چند ایک کا ذکر موجود ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف مکمل طور پر کولیپس ہو چکا ہے بلکہ سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ دنیا کے اندر سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو انٹر نیشنل سٹینڈرڈ پر لایا گیا ہے، مگر ہمارے ہاں صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ یہ تعلیمی نظام اہلیت و قابلیت کی بجائے مارکس، جی پی اے، اسائنمنٹ اور امتحانی ہال کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اس نظامِ تعلیم میں تمام شاگردوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا جاتا ہے۔ یعنی اُن کی مختلف صلاحیتوں کو دیکھنے کا کوئی دستور ہی نہیں۔ اس نظامِ نے اخلاقی تربیت کو یک سَر نظرانداز کردیا ہے۔ اس نظامِ تعلیم میں پیشہ ورانہ تعلیم کو انتہائی کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس تعلیمی نظام کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ پورا سسٹم ”کمرشل اِزم“ کے اصول پر استوار ہے۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بھی کچھ اندرونی و بیرونی مسائل کی وجہ سے کولیپس ہو رہی ہیں، یعنی ہم سب نے مل کر تعلیم کا جنازہ نکال دیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس تعلیمی نظام میں ڈھیر ساری کمزوریاں ہیں جو کہ بیان کی جا سکتی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ تعلیمی نظام مجموعی طور پر انسانی ترقی کا باعث نہیں بن رہا خواہ وہ ترقی دنیاوی ہو یا دینی۔
بالخصوص وطنِ عزیز کی تعلیمی صورتِ حال انتہائی ابتر ہے۔ وطنِ عزیز میں موجود تعلیمی نظام ”ڈبل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن“ کے اصول پر نہیں، بلکہ ”سیورل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن“ پر استوار ہے ۔ ایک سکول کا تعلیمی نظام دوسرے سکول سے ہر لحاظ سے مختلف نہیں بلکہ متضاد ہیں۔ فیس سٹرکچر سے لے کر اساتذہ کی تنخواہ تک، انتظامی صورتِ حال سے لے کر اکیڈمک معاملات تک ہر چیز اپنے وجود میں اختلاف رکھتی ہے۔ اس تمام صورتِ حال میں تعلیم جو کہ ہماری بنیادی ضرورت اور ملک میں موجود تمام مسائل کا حتمی حل ہے، انتہائی ذبوں حالی کا شکار ہے۔ جس کا ذمہ دار صرف حکومت ہی نہیں، بلکہ عوام خود بھی ہیں۔ کیوں کہ تعلیم کوئی ایک طرفہ عمل نہیں اور آج کے دور میں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور انٹرنیٹ، فیس بُک، انسٹا گرام کا زمانہ ہے، بچے وہاں مصروف ہوگئے۔ پوری رات کو فلمیں ڈرامے دیکھنے کے بعد بے چارے سارا دن کلاس کے اندر سوئے رہتے ہیں، اگر جاگیں بھی تو کلاس میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جب کورونا وائرس کی پہلی لہر آئی اور تعلیمی ادارے بند ہوئیں، تو یونیورسٹیوں کے طلبہ اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے جلوس نکال کر وزیرِ تعلیم کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔ ایسے اقوام ترقی کی دوڑ میں کیسے شامل ہوں گی اور اس لیے شامل بھی نہیں۔
اس وقت ہمارے اس ملک میں تعلیم کی زبوں حالی میں شامل کرپشن، اقربا پروری، صنفی تفریق اور سفارش کلچر وہ عوامل ہیں، جنہوں نے تعلیمی نظام کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔
اگر ہمیں اپنی قوم کو دنیا کی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرنا ہے، تو ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی نصابِ تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اپنی سلیبس کو جدید دور کے مطابق معیاری بنانا ہوگا کیوں کہ ہماری ضرورت "ڈگری ہولڈر” نہیں بلکہ ایک مہذب قوم ہے۔
__________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 06 ستمبر 2019ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرفِ قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔ جو اب تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا جاتا ہے۔