د بے ننگہ پختنو لہ غمہ ما
لویہ پریخوہ اونيولہ کمہ ما
ھغہ ملا می چی پہ ھوڈ سرہ لوئی غر وو
لہ ناکامہ کڑہ مغل تہ خمہ ما
​تاریخ کی کتابیں عظیم شخصیات کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں، لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا نام محض تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں رہتا، بل کہ وہ اپنے خطے کے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتی ہیں۔ اُن کا کردار، اُن کی قربانیاں اور اُن کا نظریہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔ ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے عظیم رہ نما، سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور پختونوں کے محبوب قائد، شعیب خان شہید ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جن کا ذکر پختون قومی تحریک اور خیبر پختون خوا کی سیاست میں ہمیشہ سنہری حروف سے کیا جائے گا۔ کیوں کہ موصوف محض ایک سیاست دان ہی نہیں تھے، بل کہ ایک مکمل تحریک، ایک نظریہ اور ایک ایسی مثال تھے جس کی کوئی دوسری مثال ملنا ناممکن ہے۔
قارئین، ​شعیب خان شہید کی شخصیت لامحدود خصوصیات کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک متقی اور دین دار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار تھے۔ وہ علاقائی امن و مصالحتی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ہمیشہ لوگوں کو جوڑنے اور نفرتوں کو مٹانے کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جس سے بھی ملتے، اسے اپنے خلوص، محبت اور بے عیب کردار سے اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ عزت اور وقار ان کی پہچان تھی۔ وہ باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد کے سچے پیروکار تھے۔ تبھی تو اپنی پوری زندگی اسی نظریے کی آبیاری میں صرف کر دی۔
قارئین، ​پختون قومی تحریک کے اس درخشاں ستارے کی سیاسی جدوجہد پر لکھنا ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ کیوں کہ ​شعیب خان شہید کا سیاسی سفر قربانیوں اور آزمائشوں سے عبارت تھا۔ انہوں نے پختونوں کے حقوق اور اپنی دھرتی کی سربلندی کے لیے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پختون کاز کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں انہیں چھے بار قید و بند کی سزائیں کاٹنی پڑیں، لیکن جیل کی دیواریں اور آمرانہ ہتھکنڈے کبھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکے۔ وہ ہمیشہ نامساعد حالات میں بھی چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
​1997ء میں وہ عوامی نیشنل پارٹی ضلع صوابی کے صدر منتخب ہوئے اور اسی سال اپنی بے پناہ مقبولیت اور عوام کی خدمت کے اعتراف میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بہ حیثیت ممبر صوبائی اسمبلی انہوں نے نہ صرف اپنے حلقے کے لوگوں کی بے لوث خدمت کی بل کہ ایوان کے اندر پختونوں کے غصب شدہ حقوق کے لیے ایک توانا اور جرأت مند آواز بن کر ابھرے۔ ان کی سیاست کا محور اقتدار نہیں بل کہ عوام کی فلاح و بہبود اور پختون قوم کی شناخت کا تحفظ تھا۔

شعیب خان شہید کا رہبرِ تحریک (دوم) اسفندیار ولی خان کے ساتھ پیار بھرے انداز میں ایک یادگار تصویر
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، ​شعیب خان شہید کی شخصیت صرف مقامی یا صوبائی سیاست تک محدود نہ تھی۔ ان کا کردار اور ان کی قربانیاں دراصل عالمی سطح پر ان تمام تحاریک کے لیے ایک مثال ہیں جو امن، جمہوریت اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب خطے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، شعیب خان جیسے نڈر اور پُرامن رہ نما امید کی کرن تھے۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اصل طاقت بندوق میں نہیں بل کہ عدمِ تشدد کے فلسفے اور عوام کی محبت میں ہے۔ 72 سال کی عمر میں ان کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ امن کے دشمن ان کی پُر امن اور مدلل آواز سے کس قدر خوف زدہ تھے۔ انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ پیغام دیا کہ نظریات کو گولیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انسان چی کلہ مڑ شی انسان ورپسی ژاڑی
دزینی تن پہ مرگ د وطن غرونہ پہ ژڑا شی
حېدرہ، دی ملنگ ہر چالہ داسی مينہ ورکڑہ
کہ نہ وو ورپسی بہ علمونہ پہ ژڑا شی
موصوف کے بڑے صاحب زادے اور سیاسی جانشین ​ایاز شعیب خان ​کہتے ہیں کہ عظیم باپ کا ورثہ اس کی اولاد آگے بڑھاتی ہے۔ شعیب خان شہید نے اپنے پیچھے ایک ایسی سیاسی و نظریاتی میراث چھوڑی ہے جس کا علم ان کے عظیم نوجوان فرزند، سابق امیدوار صوبائی اسمبلی ایاز خان نے اٹھا رکھا ہے۔ ایاز خان نے اپنے والد کی شہادت کے ناقابلِ تلافی صدمے کو اپنی طاقت بنایا اور سیاست کے کٹھن میدان میں قدم رکھا۔ یہ ان کی ہمت اور اپنے والد کے مشن سے گہری وابستگی کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ان طاقتوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جنہوں نے ان سے ان کا باپ چھین لیا تھا۔
د مرگ نہ منکر نہ یم خو د کار سڑی دی نہ مری
ملت ورباندی خوار شی د دستار سڑی دی نہ مری
​ایاز خان کی سیاسی جدوجہد دراصل اپنے والد کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کا سفر ہے۔ وہ اسی نظریے اور فلسفے کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں جس پر ان کے والد ساری زندگی کاربند رہے۔ وہ نوجوان نسل کے لیے ایک مثال ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی میراث صرف خاندانی نام سے نہیں ملتی، بل کہ اس کے لیے خدمت، قربانی اور عوام کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایاز خان اپنے والد کی طرح عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ضلع صوابی کے لوگوں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا سیاسی سفر اس بات کی اُمید دلاتا ہے کہ شعیب خان شہید کا بویا ہوا بیج آج ایک تناور درخت بننے کی راہ پر گام زن ہے اور ان کی فکر کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑے گی۔
قارئین، ​شعیب خان شہید جسمانی طور پر آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا نام، کردار اور ان کی قربانیاں پختون قوم کے اجتماعی حافظے میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ ایک فرد نہیں بل کہ ایک انجمن تھے۔ ایک ایسی تحریک جس کی منزل ایک پُرامن، خوش حال اور بااختیار پختون خوا ہے۔ جب تک باچا خان کا فلسفہ زندہ ہے، شعیب خان شہید کا نام بھی زندہ رہے گا۔ اور جب تک ایاز خان جیسے بہادر اور نظریاتی نوجوان میدانِ عمل میں موجود ہیں، یہ قافلہ کبھی نہیں رکے گا اور اپنی منزل پر ضرور پہنچے گا، انشاءاللہ
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا اُن کی شہادت قبول فرمائے اور ان کی صاحب زادے ایاز شعیب کو پختون قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: