یہ 17 جنوری 1987ء کی ایک سرد رات تھی جب بی بی سی (اُردو سروس) نے ایک چونکا دینے والی خبر نشر کی کہ مشہور ہاری (کسان) رہ نما اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی سینئر نائب صدر محمد فاضل راہو (Fazil Rahu) کو بدین ضلع کے شہر "گولارچی” میں دوپہر تقریباً دو بجے کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا گیا۔
یہ معروف رہ نما آج بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سندھ سمیت دیگر علاقوں میں ہزاروں حامیوں کے دلوں میں زندہ ہے، کیوں کہ انہوں نے ظالمانہ حکم رانی کے خلاف اور کسانوں سے لے کر صحافیوں تک سب کے غصب شدہ حقوق کے لیے انتھک جد و جہد کی۔
قارئین، اس مختصر تحریر میں موصوف کی سیاسی زندگی اور جد و جہد کا پر قلم کشائی کرنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں، ملاحظہ کیجیے۔
☆ ابتدائی زندگی اور سیاسی جد و جہد
محمد فاضل راہو 1934ء میں بدین ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے "راہوکی” میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مقامی زمین دار احمد خان راہو کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی آمرانہ حکومتوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور اس جد و جہد میں بے شمار مشکلات کا سامنا کیا۔ آخر کار وہ ایک گہری سازش کے شکار ہوئے اور 17 جنوری 1987ء کو دن دیہاڑے "گولارچی” میں فضل چانگ نامی شخص کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔
☆ جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں کردار
فاضل راہو کو اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ ملک میں تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کے ایک سرکردہ رہ نما بن چکے تھے۔ جب 1983ء سے 1986ء کے دوران میں عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو جیل میں تھے، تو فاضل راہو نے کامریڈ حسین بخش نریجو، عبدالقادر رنتو، ڈاکٹر آکاش انصاری، ڈاکٹر منیر احمد بھُرگری، پروفیسر عبداللہ ملاح، قاسم میر جت، مصطفیٰ سہگ، سلیمان داہری اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر مارشل لا کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔
اسی عرصے میں عوامی تحریک کے تقریباً 1,200 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکڑوں کارکن بھی قید میں ڈال دیے گئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں، فاضل راہو نے بدین ضلع میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کر کے عوام کو فوجی آمریت کے خلاف متحرک کیا۔
☆ اے این پی میں شمولیت
فاضل راہو کو نشتر پارک میں ہونے والے ایک بڑے عوامی اجتماع میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا سینئر نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اس جلسے میں پانچ سیاسی جماعتیں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی (ولی خان)، پاکستان نیشنل پارٹی (غوث بخش بزنجو)، قومی محاذ آزادی پارٹی (میراج محمد خان اور اقبال حیدر)، مزدور کسان پارٹی (سردار شوکت حیات) اور عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو) ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوئیں اور آمریت کے خلاف مشترکہ جد و جہد کا آغاز کیا۔
☆ سیاسی کیریئر کی شروعات
فاضل راہو نے جمہوریت نواز جد و جہد کا آغاز جنرل ایوب خان کے دور سے کیا۔ اگرچہ وہ رسمی تعلیم سے زیادہ آراستہ نہیں تھے، لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور مظلوم عوام کی خدمت کے جذبے نے انہیں ایک مقبول عوامی رہ نما بنا دیا۔
انہوں نے طاقتور صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی حمایت کرنے کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، جب وہ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے خلاف امیدوار تھیں۔ انہی انتخابات میں وہ ترائی یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
☆ ون یونٹ کے خلاف مزاحمت
اسی دوران میں وہ "ون یونٹ” کے خلاف تحریکوں میں بھی سرگرم رہے، جو زیادہ تر حیدر آباد میں منعقد کی جاتی تھیں۔ اس وقت حیدر آباد قومی، سوشلسٹ/کمیونسٹ، طلبہ، شاعروں اور صحافیوں کی مزاحمتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ 1968ء میں، انہوں نے بدین سے حیدر آباد تک ایک بہت بڑا جلوس نکالا، جس کا مقصد "ون یونٹ” کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
☆ دیگر سیاسی سرگرمیاں
1970 کی دہائی میں، انہوں نے "ووٹروں کی فہرست سندھی میں شائع کرو” تحریک کی قیادت کی۔ وہ عوامی تحریک کے بانی رہ نماؤں میں سے ایک تھے، جو 1970 میں حیدر آباد میں قائم کی گئی تھی۔
عوامی تحریک میں انہیں رسول بخش پلیجو کے برابر حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے مختلف پارٹی ونگز، جیسے سندھی سوجھک بار تحریک، سندھیانی تحریک اور سندھی شاگرد تحریک کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
☆ خواتین کی سیاست میں شمولیت
فاضل راہو سندھ کے شاید پہلے رہ نما تھے جنہوں نے خواتین کی سیاسی مزاحمت اور احتجاج میں عملی شرکت کی حمایت کی۔ ان کی بیٹی، شہناز راہو، سندھیانی تحریک کی پہلی صدر منتخب ہوئیں۔
☆ فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد
فاضل راہو نے اپنی پوری زندگی فوجی آمریت کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری، تاکہ ہاریوں اور محروم طبقے کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لا سکیں۔ وہ اسی مقصد کے لیے اپنی جان قربان کر گئے۔
☆ صحافت کی آزادی کے لیے جد و جہد
انہوں نے صرف کسانوں اور مظلوم طبقے کے حقوق کے لیے ہی نہیں، بلکہ جنرل ضیاء کے نافذ کردہ سینسر شپ قوانین کے خلاف صحافیوں کے ساتھ مل کر بھی جد و جہد کی۔
☆ جیل کی صعوبتیں اور قاتلانہ حملہ
فاضل راہو کو کئی بار جیل بھیجا گیا اور انہیں کراچی، حیدر آباد، خیر پور، سکھر، مچھ اور دیگر جیلوں میں قید رکھا گیا۔ ایک بار کراچی کی لانڈھی جیل میں، ایک سازش کے تحت، ایک قیدی نے انہیں زہر دے دیا۔ تاہم، وہ کئی دن بے ہوش رہنے کے بعد صحت یاب ہو گئے۔
وہ سکھر جیل میں قید تھے جب ان کے ساتھی محمد صدیق راہو 1986ء میں انتقال کر گئے۔ جیل حکام نے انہیں چند گھنٹوں کے لیے پیرول پر رہا کیا تاکہ وہ جنازے میں شرکت کر سکیں۔
☆ ورثہ
فاضل راہو سوگواران میں چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑ گئے۔ ان کی قربانیاں آج بھی سندھ کی عوامی تحریکوں کے لیے مشعل راہ بنی ہوئی ہیں۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کی شہادت کو قبول فرمائے، آمین۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: