عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) برطانیہ کے صدر محفوظ جان بانیِ خدائی خدمت گار تحریک باچا خان بابا کے زندگی کی آخری شام یعنی 19 جنوری 1988ء سے لے کر 20 جنوری کو وفات کے دن، 21 جنوری کو نمازِ جنازہ، 22 جنوری کو جلال آباد تک کے سفر اور شیشم باغ میں تدفین تک کے حالات اور واقعات کا آنکھوں دیکھا حال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛ یہ منگل 19 جنوری 1988ء کی ایک شدید سرد، نہایت بھاری، اُداس اور افسردہ شام تھی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ یعنی (ICU) میں جہاں فخرِ افغان باچا خان بابا حالتِ کومہ میں پڑے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، ہم رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان سمیت پارٹی کے دیگر راہ نماؤں جن میں خان محمد افضل خان لالا، عبدالطیف آفریدی (مرحوم)، عبد الخالق خان جج صاحب، حاجی غلام احمد بلور، سینیٹر حاجی عدیل (مرحوم)، شہید بشیر احمد بلور، اُس وقت پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر میاں افتخار حسین، صوبائی صدر صدر الدین مروت (مرحوم)، حسین شاہ خان یوسف زئی، فرید طوفان، ارباب ظاہر شہید، حمید الرحمان لالا، جہان زیب صدیق، ارباب ہمایون خان، ارباب سیف الرحمان خان، ارباب عبدالرحمان خان کافور ڈھیرئی، مجید خان لالا طورو اور دلبر خان ٹکر (کاکا) شامل تھے، کے ساتھ پورا دن گزارنے کے بعد جب شام ڈھلے ایک دوسرے سے رخصت ہونے لگے، تو سب کے چہروں پر مایوسی، اُداسی اور ایک انجانہ خوف طاری تھا۔ ہر طرف ایک خاص افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ سب مشران ایک دوسرے کو سوالیہ انداز میں دیکھ رہے تھے مگر سوال کی جرات اور جواب کی ہمت شاید کسی میں بھی نہیں تھی۔ کیوں کہ اُس وقت ولی خان بھی نہایت سنجیدہ اور افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ رنجیدگی ان کی چہرے سے ٹپک رہی تھی۔
قارئین، وہاں موجود لوگوں میں، مَیں سب سے چھوٹا اور کم عمر تھا لہٰذا میرے لیے پارٹی راہ نماؤں کی یہ اُداسی، رنج بھری چہرے اور بدلے ہوئے تیور بہت کرب ناک تھے۔ کیوں کہ مَیں نے پارٹی کی تمام تر قیادت خصوصاً ولی خان کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا تھا مگر آج کا ماحول صریحاً اس کے برعکس تھا۔ ان تمام تر صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے اُس وقت مجھے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوئی کہ پارٹی قائدین کے یہ مضطرب روئیے بے وجہ نہیں تھے۔ یقیناً ان کو ڈاکٹروں نے ضرور کوئی ایسی بات بتائی ہوگی جو ان کی اُداسی کی وجہ بن رہی ہے۔
قارئین، مَیں اپنے اندر کی غیر یقینی کیفیت کو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکا اور رخصت ہوتے ہوئے دلبر خان کاکا کی طرف لپکا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ کاکا! سچ بتائیے، بابا کو کچھ ہوا تو نہیں … سب ٹھیک تو ہے نا … اور آپ سب لوگ اس قدر پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہیں…؟ کاکا اپنے روشن آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے گورنے لگے مگر کوئی جواب دیے بغیر خاموش رہے۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا، تو اس مرتبہ اگر چہ زرا گستاخی سے ان کا ہاتھ جھٹک کر سیدھا سوال پوچھا کہ کاکا! آپ خاموش کیوں ہیں … آپ بتاتے کیوں نہیں … سچ بتائیے کیا ہم باچا خان کو دوبارہ دیکھ پائیں گے یا نہیں…؟ میرے ان سوالوں پر کاکا سکتے میں آگئے، منھ سے کچھ نہ کہہ پائے مگر ان کے کانپتے ہوئے ہاتھ، لرزتے ہونٹ اور آنکھوں سے رواں آنسوؤں کی نہ رُکنے والی لڑیوں میں میرے سارے سوالوں کا جواب موجود تھا۔ لیکن شاید مَیں اپنی کم عمری اور لا اُبالی پن کے سبب اب بھی یہ سمجھ رہا تھا کہ بابا ضرور ٹھیک ہوں گے اور ہم ان کے ساتھ پھر سے جلسے جلوسوں میں نعرے لگاتے پھریں گے۔ مگر حالات اور موقع پر موجود مشران کو دیکھتے ہوئے میں بھانپ گیا کہ آج کی رات کچھ انہونی ہونے جارہی ہے۔
قارئین، ولی خان جب رخصت ہوئے، تو خدائی خدمت گاروں کا ایک دستہ سالار رامبیل خان کی قیادت میں جو دن رات وہاں ہسپتال میں قائم کیمپ میں موجود رہتا، کے علاوہ ہم سب رخصت ہونے لگے۔ مجھے اور ارباب ظاہر شہید کو پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ارباب ہمایوں خان اپنے گھر تہکال بالا لے آئے۔ راستے میں، مَیں نے ارباب ہمایوں سے بھی وہی سوال کیا کہ کیا باچا خان کی حالت واقعی بہت خراب ہے…؟ انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر گاڑی کے شیشے کی طرف منھ رکھے اثبات میں سر ہلایا۔ جس کے بعد مجھ میں ان سے مزید سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی، یوں گھر پہنچنے تک گاڑی میں مکمل سکوت چھائی رہی۔
قارئین، 20 جنوری بہ روزِ بدھ باچا خان نے اپنی جاں، جانِ آفریں کے حوالے کر کے داعِ اجل کو لبیک کہہ دیا، انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
چوں کہ مَیں اور ارباب ظاہر رات دیر تک باچا خان بابا کی زندگی اور جد و جہد اور کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کے پیشِ نظر باتیں کرتے ہوئے دیر سے سوئے تھے، لہٰذا علی الصبح جب ہم ابھی سو رہے تھے کہ اسی اثنا میں ارباب ہمایون نے آکر ہمارے کمرے کے دروازے پر زور سے دستک دیتے ہوئے ہمیں جگایا۔ جیسے ہی ارباب ظاہر نے دروازہ کھولا، تو ہمایون خان نے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ؛ الاکانوں پاسئی باچا خان پہ حق ورسیدو” (یعنی اُٹھو باچا خان انتقال کرگئے)۔ یوں ہمیں چند ضروری کام حوالے کرتے ہوئے موصوف خود ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سنتے ہی ہمارے نیم تاریک کمرے میں مکمل خاموشی چھائی، مجھے اور ارباب ظاہر میں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ہمارا ذہن ماوف سا ہوگیا۔ کچھ وقت کے لیے ایسا لگا جیسے وقت رُک گیا ہو اور زندگی جامد ہوگئی ہو۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے کمرے کی بتی جلائی، تو دیکھا کہ ارباب ظاہر کمرے کے ایک کونے میں دو رانوں بیٹھے اپنے چہرے کو ہاتھوں میں لیے ہچکیاں لیتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے۔ وہ لمحے اتنے کرب ناک تھے کہ مجھ میں ان کو دلاسہ دینے کی ہمت تک نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی اُٹھ کر اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے مجھے کہا کہ "پاسہ چی زو” یعنی اُٹھو چلتے ہیں۔
ہم ارباب ہمایوں خان کے ہجرے سے ارباب الطاف کے گھر گئے جہاں سے پارٹی کے جھنڈے، کچھ بینرز اور ٹوپیاں اُٹھاتے ہوئے ہسپتال کی طرف چل پڑے۔
تہکال بالا سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک چند میلوں کا سفر آج سیکڑوں میل کا لگ رہا تھا، کوئی گاڑی سامنے آتی، تو ایسے لگتا جیسے راستے میں پہاڑ آگیا ہو۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ جگہ جگہ باچا خان کی وفات کے ضمیمے بانٹے جا رہے تھے، لوگ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ضمیمے پڑھ رہے تھے، کوئی ریڈیو کان سے لگائے رکھا تھا، تو کوئی ٹیلی ویژن کے گرد جمع تھے۔ کیوں کہ پشاور غم و اندوہ میں ڈوب گیا تھا۔ بہر حال اللہ اللہ کرکے ہم ہسپتال پہنچ گئے۔ پارٹی کے کارکن سرخ وردی اور ٹوپیاں پہنے جوق در جوق ہسپتال پہنچ رہے تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا لگا کر دھاڑے مار مار کر رو رہے تھے، ہر طرف کہرام مچا ہوا تھا۔ پارٹی کیمپ میں موجود بین کرتی ہوئی باچا خان کے خاندان کی خواتین کی آہ و فغاں اور بیگم نسیم ولی خان کے رونے کی آوازیں دل دہلا رہی تھی۔ باچا خان کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ اخبارات نے خصوصی ضمیمے چھاپ کر ملک بھر میں پھیلا دیئے تھے۔ ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکا، آل انڈیا ریڈیو اور کابل ریڈیو معمول کے نشریات روک کر باچا خان کی وفات کے حوالے سے خصوصی بلیٹن چلا رہے تھے۔
قارئین، ہسپتال کے اندر بابا کو غسل دینے، ان کو کفن دینے اور ان کی جسدِ خاکی کو تابوت میں ڈال کر باہر لانے تک کا مرحلہ خاصا صبر آزما تھا کیوں کہ لوگ بابا کی آخری دیدار کے لیے بے تاب تھے۔ اس دوران میں ولی خان حاجی غلام احمد بلور، بشیر احمد بلور، عبدالخالق خان جج صاحب، افضل خان لالا اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہم راہ صبر و استقامت کے پہاڑ بنے کھڑے رہے اور سکون و خاموشی کے ساتھ لوگوں سے تعزیت لینے میں مصروف تھے۔ لوگ ایک ایک کر کے ان سے لپٹ کر دھاڑے مارتے ہوئے بابا کی رحلت پر اپنے غم اور رنجیدگی کا اظہار کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو قطار میں کھڑے ہو کر ولی خان سے ملنے کے استدعا کر رہے تھے۔ لوگوں کی دل دھلا دینے والی چیخ و پُکار سے میرا کلیجہ باھر آرھا تھا۔ کیوں کہ جب میری نظر ولی خان پر پڑتی، تو مجھے محسوس ہونے لگتا کہ میرے اندر کا ضبط اب ٹوٹنے کو ہے اور میرے صبر و برداشت کا بندھن اب ٹوٹنے والا ہے۔ لہٰذا میں کوششِ بسیار کے باوجود اپنے آپ کو روک نہ پایا اور جا کر ولی خان سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رویا۔ ولی خان اپنے ہاتھ میرے چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا کہ "نہ بچے ستا سو بابا مڑ نہ دے ستا سو بابا بہ تل ژوندے وی” یعنی بابا مرے نہیں، وہ ہمارے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔” خوشحال خان خٹک کے بقول:
مڑ ھغہ وی چی نہ ئی نوم نہ ئی نشان وی
تل تر تلہ پہ خہ نوم پائی خاغلی
اس دوران میں فضل الرحمان لالا (صدر سٹی ڈسٹرکٹ پشاور) نے آگے بڑھ کر مجھے ولی خان سے جدا کرتے ہوئے دلاسہ دیا۔ پھر شہید بشیر بلور، حمید الرحمان لالا (فقیر آباد) اور فرید طوفان ولی خان کو بغل گیر ہوکر ایسے روئے کہ آسمان لرز اُٹھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں موجود کوئی ایک ایسی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ تھی۔
قارئین، اسی اثنا میں باچا خان بابا کی جسدِ خاکی کو ایک خصوصی تابوت میں رکھ کر ہسپتال سے باہر نکالا گیا۔ تابوت کے اوپر پھولوں کے بڑے بڑے گدستے رکھ دیے گئے تھے۔ تابوت کو ایمبولنس میں رکھنے سے پہلے وہاں موجود لوگوں کو بابا کا آخری دیدار کرایا گیا۔ سفید کفن میں لپٹے بابا کا سرخ و سفید چہرہ خوب صورت نظر آرہا تھا۔ راقم نے تادمِ تحریر اپنی زندگی میں کسی میت کا اتنا خوب صورت، پُر نور اور دمکتا چہرہ نہیں دیکھا۔
پھر اس تابوت کو ایمبولنس میں رکھ کر اندر شہر کی طرف کھلنے والے گیٹ سے ہسپتال کے باہر والی سڑک پر لایا گیا۔ پارٹی قائدین، ہزاروں کارکن اور باچا خان کے وہ پرستار جو اُس وقت تک ہسپتال پہنچ چکے تھے، ایمبولنس کے ساتھ کننگھم پارک کی طرف روانہ ہوئے۔ ولی خان خود اپنے عظیم باپ کے جنازے کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جلوس کے آگے آگے چل رہے تھے۔ بابا کے جنازے کا یہ جلوس ایک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ لوگ فرطِ جذبات سے زار و قطار رو رہے تھے جب کہ پی ایس ایف کے نوجوان شدید نعرہ بازی کر رہے تھے۔ آہوں اور سسکیوں کے درمیان پی ایس ایف کے نوجوانوں کے یہ فلک شگاف نعرے "جب تک سورج چاند رہے گا، بابا تیرا نام رہے گا” جب قلعہ بالا حصار کی بلند و بالا دیواروں سے ٹھکراتے ہوئے گونج کر فضا میں واپس آکر بکھرتے، تو ایک عجیب سماں باندھ رہے تھے۔ جلوس آہستہ آہستہ کنگھم پارک کی جانب رینگ رہا تھا۔ یوں ہم نے دو فرلانگ کا یہ فاصلہ پورے دو گھنٹے میں طے کیا۔
(جاری ہے…)
شیئرکریں: