راقم کے علمِ ناقص کے مطابق آج تک دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں، چاہے انقلابِ فرانس ہو، روس ہو، ایران ہو یا سب سے بڑھ کر دنیا کا وہ عظیم انقلاب ہو، جسے ہمارے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے برپا کیا، تو ان سارے انقلابوں میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ تمام انقلاب اچانک ظاہر نہیں ہوئے بلکہ ایک نظریے (Ideology)، منشور (Paper Work)، تاريخی پسِ منظر (Literature Review) اور انقلاب کا طریقۂ کار (Material and Methodology) جیسے مراحل سے گزرنے کے بعد ہی کام یاب ہوئے ہیں۔
قارئین، انقلاب کے علم بردار کافی سوچ و بچار کے بعد اپنے مقاصد کے حصول کا طریقۂ کار وضع کرتے ہیں پھر اپنے کارکنان کی تربیت کرتے ہیں۔ انقلاب کے کام یاب ہونے کے صورت میں ان کے پاس اپنے پالیسیوں اور طرزِ حکم رانی کا ایک روڈ میپ (Road Map) بھی موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک لمبے پراسز سے گزر کر ہی انقلاب کام یابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
انقلاب کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ انقلاب کے علم بردار یا کسی پارٹی والے انقلاب سے پہلے کوئی ایسا نظریہ، نعرہ یا پھر بیانیہ لے کر آتی ہے جو کسی استحصالی ٹولے اور اس وقت کے اشرافیہ کے خلاف عوام کے ایک طبقے کے لیے خصوصی دل کشی اور دل چسپی کا باعث بنے، جو ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھی اس استحصالی نظام سے نجات چاہتی ہوں، تاکہ اس گروہ کو اپنے طرف مبذول کرسکے۔ پھر اس طبقے میں جو جوشیلے جوان ہوتے ہیں یا ظلم کی چکی میں پسے عوام کا وہ طبقہ جو موجودہ استحصالی نظام سے نجات کے لیے کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہو ان کا برین واش (Brainwash) کرکے اپنے خاص کارکن بناتے ہیں۔ پھر انقلاب کا نظریہ یا بیانیہ ایک منظم انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جو طبقہ اس پیغام کو قبول کرتے ہیں، اگلے مرحلے میں ان کو اپنے جماعت میں منظم کیا جاتا ہے اور پھر سمع و طاعت کی بنیاد پر ان کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے ایک حکم پر مر مٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، ان کے خلاف اس وقت کے مراعاتِ یافتہ طبقے کی جانب سے مزاحمت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ مزاحمت تمسخر و استہزاء سے لے کر جسمانی تشدد تک ہوسکتی ہے لیکن اس دوران میں جماعت کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باعث اس جماعت کے کارکنان کو محض صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔
رفتہ رفتہ جب انقلاب والوں کی ایک معتدبہ تعداد تیار ہوجاتی ہے، تو پھر اس جماعت کا اگلا قدم سامنے آکر حکومتِ وقت کو اپنے مطالبات کے حق میں چیلنج کرنا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ حکومت سرنڈر نہیں کرتی۔ یوں انقلاب کا آخری مرحلہ مسلح تصادم کے صورت میں سامنے آتا ہے۔
جس کے نتیجے میں مذکورہ انقلابی جماعت کا یا تو دھڑن تختہ ہوتا ہے یا اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتی ہے۔
لہٰذا یاد رکھنا کہ اگر کسی لیڈر یا جماعت کے پاس یہ مطلوبہ نظریہ منشور، لٹریچر ریویو، کارکن وغیرہ دستیاب نہیں، تو صرف زبانی جمع خرچ سے کوئی کام کبھی چلا ہے اور نہ آیندہ چلے گا۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: