مدارس کو محکمہ تعلیم کے تحت لانے کی پالیسی سابقہ حکومتوں کی بھی خواہش رہی اور موجودہ حکومت کی بھی ہے، مگر مولانا فضل الرحمان وفاق المدارس کے پلیٹ فارم کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے مدارس کو "فیکٹری” کے طور پر کام کرنے دینے پر بہ ضد ہیں۔
2019ء تک مدارس جس کھاتے میں رجسٹر ہوتے تھے، اس کے تحت تخصصات کرنے والے طلبہ بھی "ان پڑھ” شمار ہوتے۔ کوئٹہ کے 90 سالہ شیخ الحدیث کو برسرِ ممبر جمعہ کے خطاب میں ایک بار عوام کے سامنے میں نے خود یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا کہ کسی معاملے میں سرکاری دستاویزات کے اندر انہیں "ان پڑھ” لکھا گیا ہے۔
عمران خان نے مدارس کو "ہائیر ایجوکیشن کمیشن” کے تحت لانے کا فیصلہ کیا، جس پر خود وفاق المدارس کے ذمہ داروں نے بھی دستخط کی ہے مگر مولانا صاحب جو کہ مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو ہمیشہ ایک موہوم دشمن سے ڈرا کر اندھی عقیدت میں رکھتے ہوئے اپنے پیچھے لگانا چاہتے ہیں اور موقع بہ موقع حکومتوں کو وقتی مفادات کےلیے بلیک میل کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل سیاسی پریشر کے طور پر ہتھیار بنا کر استعمال کرتا آیا ہے، نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ اس مخالفت کی ایک وجہ وہ بڑے مدارس ہیں جو مشکوک ذرائع سے چندہ جمع کرتے ہیں اور آڈٹ رپورٹ دینے سے رعایت چاہتے ہیں۔
عمران خان نے مدارس اور مساجد کو اوقاف کے تحت لانے اور سرکاری معاونت فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا، تاکہ موروثی اثر و رسوخ ختم ہو مگر یہ قانون پاس نہ ہوسکا۔ یہ قانون پاس ہوتا، تو 90 فی صد وقف مدارس کے مہتممین کی چھان بین ہوتی اور چھانٹی میں اچھی کارکردگی والے برقرار رہتے اور ناجائز طور پر قبضہ جما کر چندے ہڑپ کرنے والے میراث کے مسند پر میٹھ کر نااہل مہتمم بے روزگار ہوجاتے۔
قارئین، مدارس کو فیکٹری کی مانند چلانے کا مقصد طلبہ کو تعلیم دینا نہیں بلکہ افغان جنگ کے دوران میں انہیں بموں کے "پُرزے” فراہم کرنے والے ادارے بنانا تھے۔ مولانا فضل الرحمان اسی پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اگر مستقبل میں جنگ کا کوئی خزانہ نکلے، تو ان خالی الذہن طلباء کو مشتعل کرکے ایک بار پھر والدین سے اجازت لیے بغیر ان سے کسی نئے محاذِ جنگ کو گرم کیا جائے اور اپنا کرایہ وصول کیا جائے۔ جب کہ بعض بوڑھے والدین گذشتہ جنگوں میں افغان وادیوں، دشت و بیابانوں اور صحراؤں میں گم اپنے جگر گوشوں کی راہ تک رہے ہیں۔
قارئین، تعلیمی اداروں کے نام نصاب کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ دیہات کے کسی پرائمری سکول کو یونی ورسٹی کہنا عجیب نہیں لگتا…؟ مدارس سسٹم میں ناظرہ و حفظ کے مدرسوں کو "جامعہ” کہنا مجھے بھی بالکل ایسے ہی مضحکہ خیز جہالت محسوس ہوتا ہے کیوں کہ جامعہ کا مطلب ہے یونی ورسٹی۔ "دارالعلوم” کا مطلب کالج اور "مدرسہ” کا مطلب سکول ہے۔ مگر ہمارے بے چارے عقل کے مارے مہتمم حضرات چھوٹے چھوٹے مکاتب کو بھی "جامعہ” کے نام سے فیکٹری کے طور پر رجسٹرڈ کرتے ہیں۔
"فقہ حنفی” میں وقف املاک میں توارث ناجائز ہے، مگر ہمارے ہاں یہی حنفی مہتمم کے انتقال پر اس کا حنفی بیٹا وقف زمین پر بنی درس گاہ کا مہتمم بن جاتا ہے۔ پھر طلباء اور اساتذہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھتا ہے وہ آپ نے گذشتہ دنوں احسن العلوم کراچی کے موروثی مہتمم مفتی انور شاہ کی لائیو ریکارڈنگ میں جھلک دیکھ ہی لیا ہے۔ جب کہ 99.99 فی صد مدارس میں تدریس اور ماحول سوشل میڈیا پر نشر نہیں ہو رہا۔
موروثی پیروں، سیاست دانوں، اور مہتمموں کا اصل مسئلہ اسلام یا مدارس نہیں، بلکہ اپنی اجارہ داری کو لاحق خطرات ہیں۔ انہیں اسی کی فکر ہے۔ ان کا باہمی معاملہ ججوں، جرنیلوں اور کرپٹ سیاست دانوں کا سا ہے۔ یہ خوف میں باہم "من ترا حاجی می گویم، تو مرا ملا بگو” کا مصداق بنے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو بڑے بڑے القابات، خطابات، اعزازات اور خدمات سے نوازتے رہتے ہیں۔
مدارس کے طلبہ کو "سقوطِ اندلس و غرناطہ” کے انجام سے ڈرایا جاتا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے بغیر نئے دور کے علما سب درباری و سرکاری بن جائیں گے مگر خود معمولی گورنر کو بھی سیدنا عمر سے تشبیہ دینے میں جھجکتے نہیں۔
وفاق المدارس کے 1200 نمائندہ مدارس میں سے 1100 سے زائد مدارس کے مہتمم موروثی طور پر مقرر ہوئے ہیں، یہی لوگ صدرِ وفاق المدارس اور ناظم اعلا وفاق المدارس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب کہ موجودہ صدر اور ناظم خود بھی موروثی شہرت کے حامل ہیں۔ ذاتی خدمات کیا ہیں…؟ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ بل کے زیرِ نظر صفحات پر ان کی دستخط ہیں، نہ جانے اب کیوں پھر رہے ہیں اپنے موقف سے…؟ حالانکہ اوقاف کی تحویل میں وقف مساجد و مدارس کو لینے کا بل تو پاس بھی نہیں ہوا۔
زیادہ بورڈ بننے سے ان کے درمیان مقابلہ و مسابقہ ہوگا، جس سے تعلیمی نظام کو مزید ترقی ہوگی جب مقابلہ ہی نہ ہو، تو اپنے خامی خوبی کو کیسے پرکھا جائے گا…؟ جب کوئی مدمقابل ہی نہ ہو، تو اکیلے دوڑ میں لامحالہ بندہ پہلے نمبر پر آئے گا بے شک کچھوے کے رفتار ہی کیوں نہ چلے۔ ان کو کوئی بتائے تو سہی کہ وفاق المدارس کوئی سیاسی جماعت نہیں کہ اس کے اتحاد کو بہر صورت برقرار ہی رکھنا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے حامی مدارس کے مہتمم، وفاق المدارس کے اتحاد کے نام پر ماتحت ورغلاتے ہیں کہ اس کے بغیر اسلام کا حال عرب ممالک جیسا ہوگا حالانکہ خود مولانا فضل الرحمان رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کا رکن ہے اور طاہر اشرفی کی طرح عرب ممالک سے تعلقات رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے تحت رجسٹریشن طلبہ اور اساتذہ کے مفاد میں ہے، جب کہ سوسائٹی ایکٹ، صنعت و پیدوار کے شعبے میں میں رجسٹریشن ان ہی موروثی مافیا کے حق میں جاتی ہے جو بڑے بڑے وقف مدارس پر ناجائز قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی استاد یا طالب علم مافیا کے مفاد میں لڑ رہا ہے، تو اس کی حماقت پر بس اسے داد ہی دی جا سکتی ہے۔
اس وقت ملک میں دو درجن سے زائد صرف مدارس کے تعلیمی بورڈز رجسٹرڈ ہیں جن میں خود وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کا اپنا مدرسہ دارالعلوم کراچی بھی بطور مستقل بورڈ شامل ہے مگر اسلام کو خطرہ صرف "مجمع العلوم” بورڈ سے ہے۔ جس کے الحاق کو کینسل کروانے کےلیے مولانا صاحب نے جنرل باجوہ اور فیض حمید سے خفیہ ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا خود وفاق المدارس کو تو کوئی اعتراض نہیں، پھر مولانا نے صدر وفاق اور ناظم وفاق کو ان کے پاس بھجوایا۔ جب کچھ نہیں ہوا اور اتحادی حکومت کو پہلے 2022ء میں نیب ترمیمی بل کے سلسلے میں بلیک میل کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوا، اب 26 ویں ترمیمی بل میں "آٹے کی ناک” جو مانگی گئی تھی، نہ ملنے پر اب ترمیم کا داغ دھلانے کےلیے اہل مدارس کو احمق بنانے کا ایک اور کارڈ کھیلنے لگے ہیں۔
_______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: