خیبر پختون خوا کی سرزمین پر قایم یوسف زئی ریاستوں کی پاکستان میں ادغام کی سازشوں میں سب سے اہم اور مرکزی کردار اگر ایک طرف جنرل پیر زادہ اور جنرل نور خان تھے، تو دوسری طرف پنجاب کی اخبارات، راول پنڈی پریس کلب، نسیم حجازی، سید علی رضوی، مجید نظامی، شیخ رشید، محمود قصوری اور غزالہ شبنم جیسے لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی ان کے دلال بن کر صدیوں سے قایم قدیم پختون خوا ریاست کی باقیات، “ریاستِ سوات” اور “ریاستِ دیر” کو پاکستان میں ادغام کے لیے فوجی جنرلز کو تحریری درخواستیں دے رہے تھیں۔ یہ لوگ جنرل پیر زادہ کےایما پر ان ریاستوں کے خلاف راول پنڈی اور لاہور میں بیٹھ کر پروپیگنڈے کر رہے تھیں، پمفلٹ چھاپ رہے تھیں اور جعلی ناموں سے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو خطوط لکھ رہے تھیں۔ کیا یہ قومی غدار نہیں تھیں…؟ کیا یہ وطن کی دشمن نہیں تھی…؟ خوا وہ اجمل خٹک تھے یا افضل خان لالا، افضل بنگش تھے یا ارباب سکندر خان خلیل، سرن زیب سواتی تھے یا ہمایون خان، قلندر شاہ باچا تھے یا دانی گل، شیر زادہ ٹھیکہ دار تھے یا عبدالروف بازارگی، فضل خالق تھے یا سراج الدین۔ ان لوگوں کا موقف تھا کہ ہم حکم رانوں کے خلاف تھیں، تو یہ پختونوں کی ریاستیں تو یوسف زئی قبیلہ کی ملکیت تھی۔ سوات پر کسی شاہی خاندان کی حکم رانی تھی اور نہ ہی دیر پر کسی شاہی نسل کی، بلکہ یہ تو وہ روحانی پیشوا تھے جن کو سوات کے لوگوں نے کرسی اور اقتدار حوالے کی تھی۔ اگر آپ مطالبہ کرتے، تو ریاستوں کو پاکستان میں شامل ہونے کا کیوں کرتے…؟ آپ حکم رانوں کی تبدیلی یا اصلاحات کا مطالبہ کرتے یا تحریک چلاتے۔ لیکن آپ ریاست کو پاکستان شامل کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
ریاستِ سوات اور دیر کے ادغام کےلیے ہونے والی سازشیں اور ان کی مرکزی کرداریں
قارئین، یہاں دل چسپ امر یہ ہے کہ جنرل یحیٰ خان بھی ان ریاستوں کی ادغام کے حق میں نہیں تھے لیکن جنرل پیر زادہ اور جنرل نور خان سمیت دیگر فوجی افیسرز اور پنجابی سیاست دانوں کی مسلسل اصرار پر ادغام کے لیے تیار ہوئے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ یہ ریاستیں آزاد حیثیت میں پاکستان کے لیے مفید ہیں۔ اولف کیرو نے بھی مارچ 1947ء میں کہ دیا تھا کہ اگر ہندوستان کے شمالی سرحد کو محفوظ رکھنا ہے، تو اس کے لیے ان ریاستوں کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔ بیگم نسیم ولی خان نے بھی ایک نشست کے دوران میں بتایا تھا کہ “ریاستِ سوات” اور “ریاستِ دیر” سے پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطر نہیں تھا، البتہ پختونوں کی یہ ریاستیں پختونوں قوم کی عزت، فخر اور وقار کی علامت ضرور تھی۔
اس طرح اعظم خان ہوتی نے راقم کو خود کہا تھا کہ ریاستِ سوات اور دیر کی پاکستان میں ادغام ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ پختون اور خاص کر یوسف زئی قبیلہ کی تاریخ کے لیے ان ریاستوں کی وجود ختم ہونے کی بعد یوسف زئی قوم کی نام اور شناخت بھی اندھیروں میں گم ہو گئی اور صدیوں سے جس سرزمین پر یوسف زئی قبیلے کا جھنڈا ان کی آبا و اجداد کی بہادری، جرأت، ہمت اور سرفروشی کا نشان بن کر لہرا رہی تھی، وہ نشان خود چند نا اہل اور لالچی پختونوں نے جنرل یحیٰ خان کے بازو بن کر نیچے گرا کر خاک میں ملا دیا۔
ڈاکٹر صمد اپنی کتاب “وادئ سوات کی سیاحت” میں رقمِ طراز ہے کہ “ادغام کے وقت سوات کے 80 سے 90 فی صد لوگ ادغام کے خلاف اور والی سوات کے حامی تھے۔ جب ادغام کا فیصلہ ہوا، تو لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کیا لیکن پولٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ ابراھیم نے مکر و فریب سے کام لے کر مظاہرین کو اس بات پر مطمئن کیا کہ آپ لوگ جنرل یحیٰ کے نام خطوط لکھے اور مطالبہ کریں کہ ہم ریاست کے حامی اور ادغام کے خلاف ہیں۔ لہٰذا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ ڈاکٹر صمد کے مطابق وہ خود ملاکنڈ کے پولیٹیکل ایجنٹ سے ملے تھے۔ لاکھوں سواتیوں نے والی کے حق میں دستخطی درخواست دیے تھے جو جنرل یحیٰ تک پہچانے کےلیے ابراھیم کے پاس پہنچی۔ لیکن پولیٹیکل ایجنٹ نے ان تمام درخواستوں اور دستخطوں کو یحیٰ خان تک پہنچانے کی بجائے آگ لگا کر جلا دیئے کیوں کہ یہ ادغام جنرل پیر زادہ، جنرل نور خان اور حکومتِ پاکستان کی خواہش تھی۔ ڈاکٹر صمد رقمِ طراز ہے کہ مَیں نے خود پولیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ یہ سروے ڈسکس کیا تھا جس پر وہ ہنس پڑا اور کہا کہ یہ فیصلہ سواتی عوام کا نہیں، بلکہ حکومتِ پاکستان کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول: “میرے خیال میں اگر حکم رانانِ ریاست بزدل اور نالائق نہ ہوتے، تو وہ اپنی ریاستوں کو بچا سکتے تھے۔”
______________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔