پشتو زبان کے معروف روشن خیال اور قوم پرست ادیب، مورخ، دانش ور اور خدائی خدمت گار قاضی عطاء اللہ خان 1896ء کو ایک علمی گھرانے میں قاضی نصراللہ خان کے ہاں لنڈی ارباب میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول سے حاصل کی، جہاں ان کے والد مدرس تھے۔ 1918ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے وکالت (Law) کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ پشاور میں وکالت کی، تاہم 1925ء میں مردان منتقل ہوگئے جہاں وکالت کے ساتھ ساتھ “انجمن اصلاح الافاغنہ” کی تنظیمی امور نبھاتے رہے۔ اجمل خٹک (مرحوم) کے مطابق 1929ء میں باچا خان کے خدائی خدمت گار تحریک کا نام بھی قاضی صاحب نے تجویز کیا تھا۔
پہلی دفعہ باچا خان کی قیادت میں چارسدہ میں منعقد “رولِٹ ایکٹ” کی مخالف تحریک کے جلسے میں بھر پور حصہ لیا۔ 1923ء میں پڑانگ چارسدہ کے ایک خان کی بیٹی سے شادی کی جو اُس وقت چارسدہ کے صاحبِ حق کی بھانجی تھی۔ قاضی عطاء اللہ خان ساری زندگی باچا خان کی تحریک سے وابستہ رہے۔ انجمن اصلاح الافاغنہ، خدائی خدمت گار تحریک، یوتھ لیگ اور کانگریس کے ایک فعال رُکن رہے جس کی پاداش میں کئی سالوں تک ملک کے مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔
قارئین، قاضی عطاء اللہ خان، باچا خان کے با اعتماد ساتھی، بہترین مشیر اور خدائی خدمتگار تحریک کے “شۂ دماغ” سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کی باچا خان ان کے قیمتی مشوروں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اسے کھلے دل سے قبول بھی کیا کرتے تھے۔
قارئین، قاضی صاحب 1937ء کے عام انتخابات میں دستور ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور جب ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں کانگریس نے پہلی وزارت بنائی، تو قاضی صاحب کو وزیرِ معارف منتخب کیا گیا۔ اگر چہ وزیرِ اعلا ڈاکٹر خان صاحب تھے، لیکن حکومت کا تمام تر نظم و نسق قاضی صاحب ہی چلاتے تھے۔ وہ جلسوں جلوسوں میں بہت کم دکھائی دیتے تھے۔ کیوں کہ وہ زیادہ تر دفتری امور اور حکومتی منصوبہ بندی میں مصروف رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ کانگریس وزارت کے ایک مضبوط ستون سمجھے جاتے تھے۔
قارئین، قاضی صاحب دینی علوم پر بھی خوب دسترس رکھتے تھے۔ تاہم، اس سے بڑھ کر وہ اپنی مادری زبان، ادب اور ثقافت کے ایک بڑے شیدائی اور مبلغ تھے۔ ہمیشہ قومی لباس زیبِ تن کیا کرتے اور کلاہ و لنگی استعمال کرتے تھے۔ کانگریس وزارت کے دوران میں وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے صوبہ بھر کے سکولوں میں “انجمن حمایتِ اسلام” کی نصابی کتابیں لگائیں۔ محکمۂ تعلیم میں انہی کے وزارت میں پہلی بار صوبائی ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ میر کریم بخش پہلے ڈائریکٹر جب کہ بہادر شاہ عالم خان اس عہدے پر دوسرے ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔
قارئین، 1946ء میں کانگریس نے جب انتخابات میں کام یابی حاصل کی، تو ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت میں موصوف کو وزارتِ تعلیم کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ اسی سال قاضی صاحب “سول نافرمانی فرمانی” کی تحریک کے دوران میں سخت قید و بند کی آزمائشوں سے بھی گزرے جب کہ قیامِ پاکستان ایک سال بعد یعنی 1948ء میں رہا کردیے گئے۔ دسمبر 1931ء میں جب اُس وقت کی انگریز حکومت سے باچا خان اور ان کے ساتھیوں کے جد و جہد آزادی برداشت نہ ہو سکی، تو گرفتاریاں شروع کردیں۔ عام خدائی خدمت گاروں کو صوبے کے مختلف جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ جب کہ باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطاء اللہ خان، اور سعد اللہ خان (ڈاکٹر خان صاحب کے بڑے صاحب زادے) کو صوبے سے بہت دور ہندوستان کے جیلوں میں الگ الگ قید کردیے گئے۔
جب کچھ عرصے بعد قاضی صاحب اور سعداللہ خان بنارس جیل میں اکٹھے ہوئے، تو قاضی صاحب کو فرصت ملی اور اپنی پرانی آرزو کو پورا کرنے کےلیے اپنی قوم (پختون) کی تاریخ لکھنے بیٹھ گئے۔ جیلر کی منتقلی سماجت کرکے تاریخ کے مختلف کتب منگواتے اور اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ تاریخ کی مختلف مستند کتابوں کی روشنی میں چار جلدوں پر مشتمل کتاب “د پختنو تاریخ” لکھنے میں کام یاب ہوئے۔ اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ خوشحال خان خٹک کے نواسے افضل خان خٹک کی لکھی ہوئی تاریخ کی کتاب “تاریخِ مرصع” کے بعد یہ دوسری کتاب ہے، جسے قاضی صاحب نے اپنی مادری زبان پشتو میں لکھی ہے۔ اس سے پہلے جتنی بھی کتابیں پختون قوم کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی تھیں، وہ سب فارسی یا دیگر زبانوں میں تھیں۔
قارئین، یہ مضبوط کردار اور باچا خان کے دستِ راز 17 فروری 1952ء کو “میو ہسپتال” لاہور میں وفات پا گئے اور یوں پختون قوم ایک عظیم قومی راہ نما، ادیب، مورخ اور دانش ور سے محروم ہوگئی۔
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔