برِصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے دور تک ہندوؤں میں رواج تھی کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی، یہ رسم “ستی” (Sati) کہلاتی تھی۔
قارئین، یہ نہیں معلوم کہ ستی کا رواج کب شروع ہوا۔ کیوں کہ ویدوں میں اس کا ذکر نہیں۔ اگرچہ بعض ہندوؤں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے۔ یونانیوں نے بھی ستی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب راجپوتوں کا دور شروع ہوا۔
قارئین، ایک روایت کے مطابق بھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے۔ ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بعد بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی۔
قارئین، انڈیا پر برطانیہ کی حکم رانی کے دور کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک (Lord William Bentinck) نے دسمبر 1829ء میں ہندوؤں کی اس قدیم مذہبی رسم ستی پر پابندی عائد کی۔ لارڈ بینٹک نے 49 اعلا فوجی افسران اور پانچ ججوں سے اس معاملے پر رائے طلب کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ برطانوی حکم رانی کے دوران میں اب ایک گندے داغ کو دھونے کا وقت آ گیا ہے۔ کیوں کہ ستی انسانی فطرت کے جذبات سے بغاوت ہے۔

گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک کے پیش کیے گئے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ ستی انسانی فطرت کے جذبات سے بغاوت ہے۔
فوٹو: گوگل

ستی کو غیر قانونی اور ظالمانہ قرار دیے جانے پر لارڈ بیٹنک نے بہت سے ہندوؤں کو چونکا کر رکھ دیا۔ لارڈ بینٹک کے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ بیوہ کو جلانے میں مدد گار اور اس کی حوصلہ افزائی میں مرتکب افراد کو مجرم قرار دیا جائے گا، چاہے یہ عمل رضاکارانہ ہو یا جبر کے ساتھ کیا گیا ہو، ایسے افراد اقدامِ قتل کے مرتکب قرار دیے جائیں گے۔
لارڈ بینٹنک کے پیش کیے گئے ضابطوں پر جب قانون سازی عمل میں آئی، تو راجہ رام موہن رائے کی قیادت میں 300 سے زائد نامور ہندوؤں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ اس قانون نے ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سنگین بدنامی سے نجات دلا دی، جس میں ہمارا کردار عورتوں کے جان بوجھ کر قتل کیے کے طور پر جڑا ہوا تھا۔ تاہم قدامت پسند ہندوؤں نے لارڈ بینٹک کے اس اقدام کو چیلینج کرتے ہوئے کہا کہ ستی کی رسم مذہب کے تحت لازمی یا فرض نہیں۔ لیکن لارڈ بیٹنک اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
شیئرکریں: