پاکستان میں حکومتی رِٹ کی بحالی کے لیے ایسے قوانین موجود ہیں جو مختلف طریقوں سے حکومت کو یہ طاقت فراہم کرتا ہے کہ وہ نقصِ امن پیدا کرنے والے عناصر کو کنٹرول کر سکے۔
وادئ سوات سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ “ایم پی او” (Maintenance Public Order) 1960ء کا قانون ہے۔ جس کے کل 28 سیکشنز ہیں۔ لیکن سیکشن 03 اور سیکشن 16 کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں سیکشن ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
“تھری ایم پی او” یعنی مینٹیننس پبلک آرڈر کا سیکشن تین بنیادی طور پر ایسے افراد کے خلاف استعمال ہوتا ہے جن کے بارے میں خدشہ ہو کہ وہ کوئی ایسا کام کر سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر عوام متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے کسی بھی فرد کو ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) ایک ماہ سے لے کر تین ماہ کےلیے جیل بھیج سکتی ہے۔ اگر مزید توسیع درکار ہو، تو ہائی کورٹ کا ریویو بورڈ جس میں ایک ہائی کورٹ کا جج اور دوسرا ایک حکومتی افسر اس شخص سے متعلق ثبوتوں کی بنیاد پر اس کی گرفتاری میں مزید تین ماہ کی توسیع کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کا بھی دورانیہ چھے ماہ سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔
اس قانون کی دوسری شق “16 ایم پی او” یعنی مینٹیننس پبلک آرڈر کا سیکشن 16 ہے، جس میں کسی بھی شخص کی تقریر اور لکھے ہوئے مواد سے عوام میں افراتفری پیدا ہو، تو ایسے شخص کو براہِ راست اس قانون کے تحت گرفتار کر کے اس کو تین سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔

سیاست دانوں یا مذہبی راہ نماؤں پر ان کا اطلاق اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وہ براہ راست عوام کو مخاطب کر رہے ہوتے ہیں۔ جب حکومت کو کوئی خطرہ محسوس ہو کہ لوگ ان کے خلاف بھڑک رہے ہیں، تو ہی ایسے قانون حرکت میں آتے ہیں۔

یہ دونوں قوانین علاحدہ علاحدہ کام کرتے ہیں، تھری ایم پی او میں پہلے جرم کو بھانپا جاتا ہے اور پھر اسے ہونے سے روکتا ہے جب کہ سیکشن 16 ایسے مواد پر لگتا ہے جو وقوع پذیر ہو چکا ہو اس لیے اس کو پینل سیکشن بھی کہا جاتا ہے۔
قارئین، یہ سیکشن بڑے واضح ہیں کیوں کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت جس کو چاہے نقصِ امن کے تحت اندر کر دے، اسے اپنے آرڈر کے ساتھ ٹھوس شواہد بھی دینا ہوتے ہیں۔ اگر شواہد نہ ہو، تو ہائی کورٹ آرڈر فوری ختم کر دیتی ہے۔
شیئرکریں: