اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کے مطابق جہاں ایک طرف اُس کے ماددی اور جسمانی حوائج کی تکمیل کا اہتمام کیا، وہیں بقائے حیات کی خاطر اُسے ایسی ہدایت و راہ نمائی سے بھی بہرہ ور فرمایا جس سے وہ اپنی اخلاقی و روحانی زندگی کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہوسکے۔
قافلۂ رُشد و ہدایت کا وہ روحانی سفر جس کی ابتداء حضر ت آدم علیہ السلام سے ہوئی، یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام کے زمانوں سے گزرتا ہوا بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا۔ لیکن گم راہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تاریخِ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی انسانیت شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی۔
جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی، تو قانونِ قدرت کے مطابق ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اُجالوں کی نقیب بن گئی۔ بلادِ حجاز کی مقدس فضائیں نعرۂ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادئ مکہ میں اس نادرِ روزگار ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدا ہی سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے بے قرار تھی۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات نے اِس خاک دان کا مقدر بدل ڈالا، انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ محسنِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ اقدس میں حسن و جمالِ ایزدی کے جملہ مظاہر اپنی تمام تر دل آویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔
قارئین، ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے خاص اہمیت کا حامل مہینہ ہے۔ کیوں کہ اس مہینے میں تاج دار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی، جو انسان کامل، ہادی عالم اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کےلیے نمونہ بن کر آئے، وہ ہر شعبے میں اس اوج کمال پر فائز ہیں کہ ان جیسا کوئی تھا اور نہ ہی آیندہ آئے گا۔
قارئین، دنیا بھر میں مسلمان 12 ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے طور مناتے ہیں۔
قارئین، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 12 ربیع الاول محض منانے اور خوشی کا دن نہیں بلکہ یہ دن ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تعلیمات پر عمل کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ کیوں کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے ان چند بڑے ناموں میں سے ہیں، جنہوں نے دنیا پر گہرے نقش چھوڑیں۔ آپ نے نہ صرف عرب بدوؤں کی تقدیر بدل ڈالی بلکہ ان کی وحدانیت کے پیغام نے پورے دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ ہر مذہب، سماج اور خطے کے لوگوں نے ان کے پیغام کو قبول کیا یا اس سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے عربوں کو نہ صرف نئے مذہبی فکر سے روش ناس کیا بلکہ ایک نیا سیاسی و سماجی نظام بھی تشکیل دیا. عورتوں اور غلاموں کو اس دور کے تقاضوں کے مطابق حقوق دیے. غرباء و مساکین کے لیے زکات کا نظام متعارف کرایا، حکم ران طبقے کو رعایا پر مسلط نہیں بلکہ ان کو رعایا کا جواب دہ بنا دیا، ان خواتین کی خود شادیاں کرائی جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں۔ اخلاقیات کو بہتر مسلمان ہونے کا معیار قرار دیا، صلہ رحمی، محبت، بھائی چارے، خدمت، مدد اور حسن سلوک کا درس دیا اور عورتوں سے حسن سلوک کا خود اپنے عمل سے ثبوت دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حب پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے…؟ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے (بخاری 676)۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ اور اصل مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان ومال کے بارے میں کوئی خطرہ نہ ہو (سنن نسائی4995)۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
________________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔