ستمبر 1996ء کی 27 تاریخ اور کابل کے آریانا چوک کا منظر ہر طرف رجعت پرستی کا طاعون اور ظلمت پرستی کا جنون، سوشلسٹ افغانستان کا آخری صدر اور انقلابِ ثور کا آخری سرباز “کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ” تختۂ دار پر سر بلند ہے۔ اس کا سر مرنے کے بعد بھی جھکا ہوا نہیں ہے۔ اس کی گردن تنی ہوئی ہے، وہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کمیونسٹوں کی جرأت و بہادری کا نشان ہے۔ ان روشن روایات کا تسلسل جس سے گرامچی، جیولیس فیوچک، کرسٹوفر کاڈویل، رالف فاکس، ڈیوڈ گیسٹ، بھگت سنگھ، میر داد، دکتور تقی ارانی، خسرو روزبہ، چے گویرا، چارو مجمدار، نکولائی چاوشسکو، حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے بے شمار کمیونسٹ شہدا کا نام وابستہ ہے۔ وہ انقلابیوں کے وقار اور ان کی بہادری کی ایک اور داستان رقم کر رہا ہے۔ اس کے دامن پر اپنے ہی لہو کے گلاب کھلے ہوئے ہیں لیکن اس کے ماتھے پر ندامت کا کوئی داغ نہیں۔ اس کے گلے میں رسیاں جھول رہی ہیں لیکن ان میں رسوائی کی کوئی زنجیر نہیں ہے۔ کابل کے اندھیرے اسے نہیں نگل سکے۔ کیوں کہ وہ روشنی کا نمائندہ ہے۔ اس لیے وہ تاریک غاروں میں اترنے کی بجائے اس درخشاں تاریخ کا حصہ بن گیا، جو محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کے لہو سے سرخ ہے۔(1)
ڈاکٹر نجیب اللہ 6 اگست 1947ء میں پیدا ہوئے۔ وہ پشتون قبیلہ غلجئی کے احمد زئی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ (2)
ڈاکٹر نجیب اللہ کا شمار انقلابِ ثور کے قائدین میں ہوتا ہے۔ وہ انقلابی کونسل کے رکن تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں مارکسزم سے متاثر ہونے والے کامریڈ نجیب اللہ نے کابل یونی ورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی، جس کی اصل منزل سماجی امراض کا علاج تھی۔ ان کا تعلق افغان کمیونسٹوں کے “پرچم” دھڑے سے تھا جس نے “خلق” دھڑے سے انضمام کیا تھا۔ وہ انقلاب کے بعد مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے جن میں افغان انٹیلی جنس “خاد” کی سر براہی بھی شامل ہے۔ 1986ء میں کامریڈ نجیب “خلق ڈیموکریٹک پارٹی” کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے اور اسی سال 4 مئی کو انھوں نے سوشلسٹ افغانستان کے چوتھے صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔ ان کی ساری زندگی ایک انقلابی سپاہی کے طور پر گزری اور وہ امریکی امپریلزم اور اس کے جنونی گماشتوں کے خلاف ڈٹے رہے۔ (3)
عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین ان چند پاکستانی سیاست دانوں میں سے ہیں، جن کی ڈاکٹر نجیب سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میں سردی کے موسم میں کابل میں مقیم تھا۔ یہ بدترین خانہ جنگی اورافراتفری کا دور تھا۔ رات کے وقت کسی نے ہمارے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں ہم چند دوست ٹھہرے ہوئے تھے۔ دروازہ کھولا گیا، تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ افغان صدر ڈاکٹر نجیب کسی سکیورٹی کے بغیر اکیلے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے گرم شال سے جسم کو لپیٹا ہوا تھا۔ مَیں نے انہیں کہا صدر صاحب، حالات سازگار نہیں ہیں۔ اس طرح مت گھوما کریں۔ خود آنے کے بجائے ہمیں بلا لیا ہوتا۔ ڈاکٹرنجیب نے جواباً ایک پشتو ٹپہ بولا
زہ دہ وطن، وطن زما دی
زہ دہ وطن دہ پارہ سر قربانوومہ
(ترجمہ): مَیں وطن کا اوروطن میرا ہے۔ وطن کے لیے مَیں اپنی جاں بھی قربان کر سکتا ہوں۔”
ڈاکٹر نجیب نے کہا تھا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں یا تو غلامی کا طوق گلے میں لٹکا کر پوری زندگی جی جائے یا غیرت مند اور آزاد قوم کی طرح جیا اور مرا جائے۔ ڈاکٹر نجیب دوستوں کی محفل میں اکثر یہ ٹپہ سنایا کرتے تھے۔
په لارہ زم ٹولہ شنڑیگم
ستا دہ تہمت زنزیر پہ غاڑہ گرزومہ
ترجمہ، راہ چلتے جو کھنکھناہٹ سنائی دیتی ہے، یہ تیری تہمت کی زنجیر گلے میں لیے پھرتا ہوں۔ (4)
انھوں نے افغانستان کو سامراجی بندھنوں سے آزاد کیا۔ سود کے نظام کو ختم کیا، ولور (بردہ فروشی) کے نظام کو غیر قانونی قرار دیا۔ جاگیرداری ختم کرکے 30 جریب سے زیادہ زمینیں، بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جانے لگیں۔ یہ ایسے اقدامات تھے جس سے عالمی سامراج کو زبردست دھچکا لگا۔ (5)
ڈاکٹر نجیب اللہ شہید، بیسویں صدی میں افغان عوام کا ہر دلعزیز راہ نما، صدرِ مملکت اور ایشیا کا عظیم روشن خیال مفکر، بااصول سیاست کار اور باتدبیر عامل مدبر تھا، جو آج بھی عالمی حالات اور افغانستان کے مستقبل پر مبنی واضح پیشین گوئیوں کی وجہ سے افغان عوام کے دل و دماغ میں پوری قوت سے زندہ و تابندہ ہے۔ (6)
وہ کہا کرتے تھے کہ “امریکی سامراج کو افغانستان یا افغانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف ہماری سرزمین پر قبضہ کرکے اسے اپنے عزائم کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور انقلابی حکومت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی اسلحے اور ڈالروں کے لیے ہاتھ پھیلانے والے اگر اسے دوست سمجھتے ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ امریکی سامراج کا مقصد صرف اور صرف افغانستان کی تباہی ہے ۔(7)
“دو آویزاں جسم”
نظم: ھیلہ نجیب اللہ۔
ترجمہ: مشتاق علی شان۔
(کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کی صاحب زادی ھیلہ نجیب اللہ نے اپنے والد اور چچا کی 22 ویں برسی کے موقع پر اپنے وطن سے ہزاروں میل کی دوری پر انھیں ان درد بھرے لفظوں میں یاد کیا تھا)
“دو آویزاں جسم!”
مَیں نے اُس خون کو دیکھا
جو میرے جسم میں رواں
اور آپ کے سارے بدن پر بکھرا تھا
مَیں نے ان ہاتھوں کو دیکھا
جو مجھے مضبوطی سے
تھام لیا کرتے تھے
مَیں نے جو تحفے میں بھیجا تھا
وہ لباس آپ کا کفن بنتے دیکھا
مَیں نے وہ پیسے دیکھے
جو (تذلیل کی خاطر) آپ کی ناک پر رکھے گئے
اس لیے کہ
آپ نے کبھی کوئی صندوق ہی نہیں رکھا
مَیں نے آپ کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھے
جو آپ کبھی نہیں پیتے تھے
مَیں نے آپ کے پھٹے کپڑے
اور ٹکڑے ٹکڑے جسم دیکھا
مَیں نے لُنگی والے لوگوں کو خوش دیکھا
مَیں نے انھیں ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے
اس لیے بغلگیر ہوتے دیکھا کہ
دو بھائی کیسے سنگ سنگ لٹکائے گئے
آپ کی آدھی کھوپڑی اُڑا دی گئی تھی
اور سارا جسم زخموں سے چور چور تھا
دنیا سب کچھ دیکھ رہی تھی
اورمَیں نے خود کو
انتہائی بے بس، مظلوم اور تنہا محسوس کیا!
لیکن پھر میرا سرفخر سے بلند ہو گیا
اس لیے کہ
مَیں نے خود میں وہ شکتی پیدا کی
جو مجھے ہر ظلم اور ناانصافی کے مقابل
کھڑا کر دیتی ہے
مَیں نے دیکھا کہ وہ آپ کو
اپنی طرح آلودہ کرنا چاہتے ہیں
لیکن مَیں نے آپ کو
اپنے حقیقی رنگ میں پایا
مَیں نے وہ دو جسم آویزاں دیکھے
جنھوں نے تاریخ رقم کی
مَیں نے ان بہادروں کو دیکھا
جو اپنے موقف پر ڈٹے رہے
مَیں نے ان دلاوروں کو دیکھا
جو گوشت پوست کے بنے تھے
لیکن مرتے دم تک سینہ سپر رہے
مَیں نے ان سر فروشوں کو دیکھا
جنھوں نے شکست تسلیم نہیں کی
مَیں نے ان بہادروں کو دیکھا
جو ایک دوسرے کو عزیز رکھتے تھے
اور جو آخر دم تک ساتھ رہے
مَیں نے ان دلاوروں کو دیکھا
جو امن، اتحاد، عوام
اور افغانستان کے لیے قربان ہوئے
مَیں نے ان سر فروشوں کو
اس حال میں دیکھا
جیسے وہ تخلیق ہوئے تھے
(ھیلہ نجیب اللہ، 26 ستمبر 2018ء، سوئزرلینڈ)
حوالہ جات:
1) دی بلوچستان پوسٹ ڈاٹ کام، انقلابِ ثور کا آخری سرباز، مشتاق علی شان، 26 ستمبر 2020ء۔
2) ڈاکٹر محمد نجیب اللہ شہید، فرزند افغانستان، زلمے خٹک۔
3) دی بلوچستان پوسٹ ڈاٹ کام، انقلابِ ثور کا آخری سرباز، مشتاق علی شان، 26 ستمبر 2020ء۔
4) پی ٹی ایم فورس خیبرپختونخوا فیس بک پیج، ڈاکٹر نجیب اللہ شہید۔
5) ایکسپریس نیوز، ڈاکٹر نجیب اللہ کی یاد میں، زبیر رحمان، جمعرات 5 اکتوبر 2017ء۔
6) ڈاکٹر محمد نجیب اللہ شہید، فرزند افغانستان، زلمے خٹک۔
7) دی بلوچستان پوسٹ ڈاٹ کام، انقلابِ ثور کا آخری سرباز، مشتاق علی شان، 26 ستمبر 2020ء۔
__________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے 2021ء میں پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا تھا۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: