سینئر صحافی، مشہور نجی ٹیلی وِژن پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ کے میزبان اور معروف سیاسی و سماجی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ 23 مئی 1961ء کو لکھنوال گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلق جاٹ برادری کے وڑائچ قبیلے سے ہے۔
وڑائچ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹر کے ساتھ ساتھ جرنلزم کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ جس کی وجہ سے دسمبر 1985ء کو پرنٹ میڈیا کے ذریعے باقاعدہ صحافتی میدان میں قدم رکھا۔ شروع ہی سے جیو ٹی وی سے وابستہ ہیں اور معروف پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں مشہور شخصیات کے معمولاتِ زندگی اور رہن سہن کو دلچسپ انداز سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان‘‘ کے ’’ہیومن رائٹس پروجیکٹ‘‘ کے ذمہ دار کے طور پر بھی کام کررہے ہیں۔
وڑائچ صاحب نے 23 جنوری 2017ء کو ’’دنیا نیوز‘‘ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ جہاں گروپ ایڈیٹر کے طور پر فرائض انجام دیے۔ پنجاب کے خاندانی اور قبیلوی نظام اور اس کی انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
صحافت میں سہیل وڑائچ صاحب کا دو ٹوک سوالیہ انداز، طنزیہ لہجہ اور ٹیگ لائن ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں…!‘‘ جیسے الفاظ اور انداز مِزاح کےلیے مشہور ہے۔ متعدد اعلا سیاسی و سماجی شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں اور ان سے دلچسپ انکشافات کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔
وڑائچ صاحب کی مشہور کتابوں میں ایک ’’غدار کون…؟‘‘ اور دوسری ’’قاتل کون…؟‘‘ شامل ہیں۔ جس میں اُن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں 1999ء کی بغاوت ہوئی۔ یہ کتاب سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔
ستمبر 2020ء کو ان کی کتاب ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ کی سر ابدالى پر بنے کارٹون پر اعتراضات کی وجہ سے ملک بھر کے بُک سٹورز سے اسے ہٹا دیا گیا تھا۔ کیوں کہ ’’کور‘‘ (Cover) پر موجود کارٹون میں جنرل صاحب کو کرسی پر بیٹھے ہوئے اور موجودہ وزیرِ اعظم صاحب کو ان کے پاؤں میں بیٹھے دکھایا گیا تھا۔ جب کہ نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور مریم نواز کو پیچھے لگی ایک کھڑکی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
دیگر تصانیف میں ’’مذہبی سیاست کے تضادات‘‘، ’’چھوٹے صوبے پنجاب سے ناراض کیوں…؟‘‘، ’’جرنیلوں کی سیاست‘‘، ’’عدلیہ کی عروج کی کہانی‘‘ اور ’’پارٹی ختم ہوچکی‘‘ جو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی نااہلی کی اندرونی کہانی پر مشتمل ہے، شامل ہیں۔
قارئین، اس نشست سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ موصوف تخلیقی سوچ اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ہییں، جو ملک و قوم کےلیے خوش بختی سے کم نہیں۔ وڑائچ صاحب جیسے صحافی بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا وڑائچ صاحب کو اچھی صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائے، آمین!