قوموں کی تاریخ جنگ و جدل، فتوحات اور شکستوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، لیکن اصل معرکہ وہ ہوتا ہے جو سیاسی اور آئینی میدان میں لڑا جائے اور آنے والی نسلوں کا مقدر بدل دے۔ پختونوں کی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ بہادری، قربانی اور مزاحمت کی علامت ہے، مگر اس طویل تاریخ نے اسفندیار ولی خان جیسا بصیرت افروز پارلیمانی لیڈر پیدا نہیں کیا جس نے گولی اور بارود کے بہ جائے دلیل، آئین اور ووٹ کی طاقت سے اپنی قوم کی تقدیر بدل ڈالی۔ بلاشبہ، جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی، اسفندیار ولی خان کا نام پختونوں کو شناخت دلانے، صوبائی خود مختاری کے حصول اور جدید ترقی کی بنیاد رکھنے پر سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
یہ اسفندیار ولی خان کی سیاسی پختگی، نسل در نسل سیاسی فہم اور جمہوری جد و جہد پر اٹل یقین ہی تھا کہ انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دیے جو کئی دہائیوں سے محض ایک خواب تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت میں انہوں نے پختونوں کو بغیر کسی مسلح جد و جہد کے وہ حقوق دلائے جن کے لیے دنیا میں قومیں صدیوں تک خون بہاتی ہیں۔
قارئین، موصوف کے چیدہ چیدہ کارنامے ذیل میں تفصیل سے بیان کیے جاتے ہیں تاکہ آئندہ نسل کےلیے ایک تاریخ محفوظ ہو۔
☆ شناخت کا حصول: نام ہی نہیں، تاریخ کی بحالی سب سے بڑا تاریخی کارنامہ صوبے کا نام "صوبہ سرحد” سے تبدیل کرکے "خیبر پختون خوا” رکھنا تھا۔ یہ محض نام کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک صدی پر محیط اس مطالبے کی تکمیل تھی جو پختونوں کی ثقافتی، لسانی اور تاریخی شناخت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ تھا۔ عالمی سطح پر دیکھیں، تو قومیں اپنی شناخت کے لیے طویل اور کٹھن جد و جہد کرتی ہیں۔ اسفندیار ولی خان نے پارلیمنٹ میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ جمہوری عمل ہی قوموں کو ان کی شناخت واپس دلا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس نے تقسیم در تقسیم پختونوں کو ایک مشترکہ شناخت کے پرچم تلے جمع کر دیا۔
☆ صوبائی خود مختاری اور قدرتی وسائل پر حق، 18ویں آئینی ترمیم کا شاہکار: اسفندیار ولی خان کا دوسرا بڑا کارنامہ 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ یہ ترمیم پاکستان کی تاریخ میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی سب سے بڑی اور کام یاب مثال ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقیقی معنوں میں خود مختاری ملی۔ درجنوں وفاقی وزارتیں اور محکمے صوبوں کو منتقل ہوئے، جس سے وسائل پر صوبے کا حق تسلیم کیا گیا۔ خیبر پختون خوا کو اس خود مختاری سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ معدنی وسائل، بجلی کے خالص منافع اور دیگر مالی معاملات میں صوبے کا اختیار بڑھا، جس سے لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور انفراسٹرکچر کے میگا پراجیکٹس شروع کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ اسفندیار ولی خان کی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے یہ تاریخی کام یابی حاصل کی۔
☆ تعلیم اور ترقی کا دور، یونی ورسٹیوں اور کالجوں کا جال: ان کا وژن صرف سیاسی نعروں تک محدود نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم ہی میں پنہاں ہے۔ ان کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت (2008-2013) نے خیبر پختون خوا میں تعلیم کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کیا۔ درجنوں نئی یونی ورسٹیاں اور سیکڑوں ڈگری کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ عبدالولی خان یونی ورسٹی مردان جیسے ادارے قائم کیے گئے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کو نوجوانوں کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ اس کے علاوہ سڑکوں، ہسپتالوں اور دیگر انفراسٹرکچر کے لاتعداد منصوبوں نے صوبے کا نقشہ بدل دیا۔ یہ ترقیاتی کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب سیاسی قیادت مخلص اور دور اندیش ہو، تو محدود وسائل کے باوجود بھی عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے۔
قارئین، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اے این پی کے اس کارناموں کو دیکھ کر ملک کے اسٹیبلشمنٹ کو یہ ناگوار گزری اور یوں انہوں نے اے این پی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنا شروع کیا جو ایک تاریخی المیہ ہے۔ لیکن تسلی اس بات پر ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی تک، اس فلسفے کی راہ ہمیشہ کٹھن رہی ہے۔ انگریز دور سے لے کر آج تک، جب بھی اس جماعت نے عوام کے ووٹوں سے مینڈیٹ حاصل کیا، اسے چرانے یا اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم ہو یا ملکی اسٹیبلشمنٹ کی مصلحتیں، اس سیکولر اور ترقی پسند جماعت کو ہمیشہ اس کی دہشت گردی مخالف واضح پالیسیوں کی سزا دی گئی۔ آج پختون خطے کو درپیش چیلنجز، شمالی اور جنوبی پختون خوا کو ایک کرنے کا ادھورا خواب اور صوبائی خود مختاری کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے کا عمل اسی وقت مکمل ہوسکتا ہے جب عوامی نیشنل پارٹی جیسی حقیقی عوامی اور پارلیمانی قوت کو ایک بار پھر کام یابی ملے۔
تاریخ اسفندیار ولی خان کو محض ایک سیاست دان کے طور پر نہیں، بلکہ جدید پختون قوم کے ایک عظیم محسن اور معمار کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ شور، غضب اور انتہا پسندی کے دور میں وہ تدبر، صبر اور جمہوری وقار کی علامت بنے رہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو صرف نقشے پر شناخت ہی نہیں دی، بلکہ انہیں قلم اور علم کی طاقت سے بھی لیس کیا، ایک ایسی پائیدار بنیاد رکھی جس پر آنے والی نسلیں اپنی خوش حالی کی عمارت تعمیر کر سکتی ہیں۔ انہوں نے باچا خان اور ولی خان کے ادھورے مشن کی تکمیل کی اور یہ ثابت کیا کہ حقیقی قیادت نعرے لگانے میں نہیں، بلکہ تقدیریں بدلنے میں پنہاں ہے۔ پختون قوم ان کی اس عظیم خدمت پر ہمیشہ ان کی مقروض رہے گی۔
قارئین، پختونوں کی بقا اور ترقی کا راستہ اب بھی وہی ہے جو باچا خان نے دکھایا تھا اور جس پر اسفندیار ولی خان نے چل کر دکھایا یعنی عدم تشدد، جمہوریت اور پارلیمانی جدوجہد کا راستہ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بندوق کی گولی سے صرف لاشیں گرتی ہیں، جب کہ ووٹ کی پرچی سے قوموں کی تقدیر سنورتی ہے۔
قارئین، عوامی نیشنل پارٹی کے رہبرِ تحریک (دوم) اسفندیار ولی خان نے پختون قوم کی خاطر جیلیں کاٹی مختلف صعوبتیں جھیلیں لیکن اپنی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس وقت وہ شدید علیل ہیں اور عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالا سے دست بہ دعا ہوں کہ موصوف کو لمبی زندگی اور اچھی صحت عطا فرمائے، آمین۔
جاتے جاتے امامِ منظر کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا جو انہوں نے اسفندیار ولی خان کے 77 ویں یومِ پیدائش پر ان کےلیے لکھے ہیں:
دَ ژوند کرداراہ، دَ قام معمارہ
دَ ابئی شالا، دَ پلار دستارہ
اولس دی غواڑی، اسفندیارہ اسفندیارہ
ڈکی دی سپین دی، جوش دی زلمے دے
اَلوت تہ جوڑ ئی، زڑہ دی ژوندے دے
خوی دی ھم ھاغہ، باچا خانے دے
فکر دی زوان دے، جذبہ بیدارہ
اولس دی غواڑی، اسفندیارہ اسفندیارہ
ستا پہ خوَلو کے، رنگ دَ محنت دے
ستا پہ پرھر کے، درد دَ خدمت دے
ستا سیاست خو، دَ ژوند جنت دے
پہ سرو لمبو ده ستا دَ تگ لارہ
اولس دی غواڑی، اسفندیارہ اسفندیارہ
نغمے دی نن ھم شوری سپین غر کے
قیصی دی نن ھم اورم خیبر کے
تخم دی خور شہ، ٹول اشنغر کے
دَ ولی رنگہ دَ ایمل پلارہ
اولس دی غواڑی، اسفندیارہ اسفندیارہ
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔