ایمل ولی خان پروگریسو اور مظلوم قوموں کی سیاست کے علم بردار ہیں جب کہ منظور پشتین پختون سیاست کے ایک محدود دائرے کے کھلاڑی ہیں۔ ان کی سیاسی حکمت عملی، نظریاتی بنیادیں اور قیادت کے انداز میں بنیادی فرق موجود ہیں۔ ایمل ولی خان ایک نظریاتی ورثے کے امین ہیں، جو عوامی نیشنل پارٹی کی طویل مزاحمتی روایت کی علامت ہیں۔ وہ کسی عارضی جذباتی لہر یا حادثاتی واقعے کے نتیجے میں نہیں ابھرے، بلکہ ایک منظم سیاسی ڈھانچے اور تاریخی تسلسل کے نمائندے ہیں۔ دوسری جانب منظور پشتین کی قیادت پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے ابھری جو فوجی آپریشنز اور ان کے پشتون آبادی پر اثرات کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی۔ بدقسمتی سے منظور پشتین کی سیاست جذباتی، پاپولسٹ نعروں پر مبنی اور غیر منظم ہے، جو اکثر ان کے کارکنوں کو گالم گلوچ، بدتمیزی اور سماجی انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ فرق دونوں لیڈروں کے سیاسی کردار، مقاصد اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
☆ ایمل ولی خان کی نظریاتی تسلسل اور ادارہ جاتی سیاست
ایمل ولی خان کی سیاست عوامی نیشنل پارٹی کے نظریاتی اصولوں پر استوار ہے جو خان عبدالغفار خان (باچا خان) کے فلسفہ عدم تشدد، سماجی انصاف اور پشتون قومیت کے تحفظ سے جڑے ہیں۔ اے این پی کی تاریخ برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد سے لے کر پاکستانی ریاست کے اندر جمہوری حقوق کے لیے کوششوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایمل ولی خان اس ورثے کے نگہبان ہیں اور ان کی قیادت اس نظریاتی تسلسل کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ پاپولسٹ نعروں یا عارضی مقبولیت کے بہ جائے طویل المدتی سیاسی حکمت عملی پر توجہ دیتے ہیں جو جمہوری اداروں، پارلیمانی سیاست اور پشتون حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ ان کا سیاسی انداز منظم، ادارہ جاتی اور پاکستانی ریاست کے وسیع تر جمہوری تناظر سے ہم آہنگ ہے۔
ایمل ولی خان پارلیمانی سیاست کے ذریعے تبدیلی لانے کے قائل ہیں۔ وہ نہ صرف پختونوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں بلکہ دیگر قومیتوں کے حقوق اور وفاقی ڈھانچے کے اندر صوبائی خودمختاری کے لیے بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کی قیادت قانون کی بالادستی، جمہوریت اور ادارہ جاتی استحکام پر زور دیتی ہے۔ ایمل ولی خان نے اپنے والد اسفندیار ولی خان اور دادا ولی خان جیسے لیڈروں کی سیاست سے بہ راہ راست استفادہ کیا۔ ایمل ولی خان کو پیچیدہ سیاسی حالات سے نمٹنے کی تربیت حاصل ہے۔ یہ تجربہ ان کی قیادت کو پختہ اور پائیدار بناتا ہے۔
اس کے برعکس منظور پشتین کی سیاست ردعمل پر مبنی، جذباتی اور پاپولسٹ نعروں سے بھر پور ہے۔ پی ٹی ایم کا جنم سابقہ فاٹا (FATA) اور خیبر پختون خوا میں فوجی آپریشنز کے نتیجے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہوا۔ اگرچہ اس تحریک نے پشتونوں کے مسائل کو اجاگر کیا، لیکن اس کی حکمت عملی غیر منظم، عارضی اور اکثر سماجی انتشار کی طرف مائل رہی ہے۔ منظور پشتین کی قیادت سوشل میڈیا اور عوامی جلسوں کے ذریعے تقویت پاتی ہے، لیکن یہ جذباتی نعروں اور پاپولسٹ بیانیے پر انحصار کرتی ہے، جو ان کے کارکنوں کو گالم گلوچ، بدتمیزی اور غیر مہذب رویوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل نہ صرف سیاسی مکالمے کو زہریلا بناتا ہے بلکہ پختونوں کے جائز مسائل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
پی ٹی ایم کی سیاست کا کوئی واضح نظریاتی ڈھانچہ یا طویل المدتی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ اس کی حکمت عملی مخصوص مطالبات جیسے جبری گمشدگیوں کا خاتمہ یا فوجی آپریشنز کے اثرات سے نجات تک محدود ہے۔ یہ تحریک ریاستی اداروں سے بہ راہ راست ٹکراؤ کی شکل اختیار کرتی ہے جو اکثر تعمیری مذاکرات کے بہ جائے تصادم کا باعث بنتی ہے۔ منظور پشتین کی سیاسی تربیت کا فقدان ان کی قیادت کو غیر منظم اور جذباتی بناتا ہے، جو پختونوں کے مسائل کو حل کرنے کے بہ جائے سماجی تقسیم کو گہرا کرتا ہے۔
ایمل ولی خان اور منظور پشتین کی قیادت میں بنیادی فرق ان کے سیاسی تجربے، نظریاتی بنیادوں اور طریقہ کار میں ہے۔ ایمل ولی خان کی سیاست نظریاتی تسلسل، ادارہ جاتی ڈھانچے اور جمہوری عمل پر مبنی ہے جو پشتون حقوق کو پاکستانی ریاست کے اندر جمہوری طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان کا انداز پختہ، منظم اور تعمیری ہے، جو طویل المدتی استحکام اور ترقی پر مرکوز ہے۔
دوسری جانب منظور پشتین کی سیاست جذباتی، غیر منظم، اور پاپولسٹ ہے جو ان کے کارکنوں کو گالم گلوچ اور بدتمیزی کے عروج پر لے جاتی ہے۔ یہ طرز سیاست نہ صرف پختونوں کے جائز مسائل کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی اور سیاسی مکالمے کو بھی کم زور کرتا ہے۔ اگرچہ پی ٹی ایم نے پختونوں کے مسائل کو اجاگر کیا، لیکن اس کا غیر مہذب اور تصادمی انداز تعمیری نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایمل ولی خان اور منظور پشتین دونوں پختون حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن ان کی قیادت کے انداز اور سیاسی حکمت عملی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایمل ولی خان کی قیادت نظریاتی، منظم اور جمہوری اصولوں پر مبنی ہے، جو پشتونوں کے حقوق کو پائیدار اور تعمیری طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس منظور پشتین کی جذباتی اور پاپولسٹ سیاست جو گالم گلوچ اور بدتمیزی کو فروغ دیتی ہے، پشتونوں کے مسائل کو نقصان پہنچاتی ہے اور سماجی انتشار کو ہوا دیتی ہے۔ لہذا پشتون سیاست کے مستقبل کے لیے ایمل ولی خان کا منظم اور نظریاتی انداز زیادہ مؤثر اور پائیدار ثابت ہوگا۔
_________________________
اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔