بولیویا کے چمکتے نمک کے میدانوں، جمہوریہ کانگو کے کوئلے سے بھری زمینوں، افغانستان کے ناہم وار پہاڑوں اور پاکستان کے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے معدنیات سے مالا مال علاقوں کے نیچے ایک جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ ٹینکوں یا ڈرونز سے نہیں بلکہ کارپوریٹ سودوں، مالیاتی منڈیوں کی چالوں اور عالمی اشرافیہ کی دانستہ بے حسی کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔ اس کا داؤ کیا ہے…؟ دنیا کے معدنی خزانے تانبا، سونا، لتھیم، کوبالٹ، نایاب زمینی عناصر، تانبا اور جیواشم ایندھن جو سمارٹ فونز، برقی گاڑیوں اور نام نہاد سبز انقلاب کو طاقت دیتے ہیں۔ اس کا نقصان کسے ہوتا ہے…؟ سیارے کی سب سے کم زور آبادیوں خلق خدا کو جن کی زمینیں تباہ کی جاتی ہیں، جن کے دریا زہر آلود ہو جاتے ہیں اور جن کا مستقبل منافع کے بدلے بیچ دیا جاتا ہے۔
یہ ہے اکیسویں صدی کے سامراج کی شکل۔ ماضی کے نوآبادیاتی جھنڈوں اور جنگی جہازوں کی جگہ اب آزاد منڈی کے سرمایہ داری کے نرم ہتھیاروں نے لے لی ہے۔ خفیہ معاہدوں، حکومتوں کو خریدنے یا گرانے اور ایک عالمی معاشی نظام کے ذریعے جو چند مراعات یافتہ افراد کو مالا مال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ لوٹ مار وسیع، منظم اور بے رحم ہے اور یہ سب کے سامنے ہو رہی ہے۔
معدنی دولت کی تلاش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ تہذیب، لیکن آج کی استحصالی سلطنتیں جدید پیمانے پر کام کرتی ہے۔ ارب پتیوں کا ایک چھوٹا گروہ کان کنی کے سرغنہ، ٹیکنالوجی کے مغل اور توانائی کے تاجروں ایسا اثر و رسوخ رکھتا ہے جو اکثر خود مختار ممالک سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ انہیں علاقوں کو فتح کرنے کے لیے فوجوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ لابی، کارپوریٹ انضمام، اور موقع پرست انقلابات کے ذریعے انہیں حاصل کر لیتے ہیں۔
لاطینی امریکہ میں لتھیم ٹرائی اینگل جو بولیویا، چلی اور ارجنٹائن پر محیط ہے، ایک نئی معدنی دوڑ کا مرکز بن گیا ہے۔ لیتھیم جو بیٹریوں کے لیے ضروری ہے اور "سفید سونا” کہلاتا ہے، کو قابل تجدید توانائی کی طرف عالمی منتقلی کے لیے تیزی سے نکالا جا رہا ہے۔ لیکن ان علاقوں کی مقامی آبادیاں بے گھر ہو رہی ہیں، ان کے پانی کے ذخائر کان کنی کے عمل سے ختم ہو رہے ہیں جو لوگوں پر منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔
جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں جو دنیا کے 70 فی صد کوبالٹ کی فراہمی کرتا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں جیسے "گلینکور” اور "چائنا مولیبڈینم” ایک تلخ حقیقت کا پالن کرتی ہیں۔ ہزاروں کان کن جن میں سات سال تک کے بچے شامل ہوتےہیں، خطرناک حالات میں صرف 3 ڈالر یومیہ کے عوض محنت کرتے ہیں۔ ڈی آر سی کو کوبالٹ کی دولت نے عالمی ٹیکنالوجیکل معیشت کا اہم ستون بنا دیا، لیکن اس کے لوگ دنیا کے غریب ترین افراد میں شامل ہیں۔ ان کی محنت سے سلیکون ویلی اور شینزین میں دولت جمع ہوتی ہے۔
افغانستان کی کہانی خاص طور پر افسوس ناک ہے۔ اس ملک کے نیچے تقریباً 1 ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر تانبا، سونا، لیتھیم، اور نایاب زمینی عناصر موجود ہیں جن پر صنعتی طاقتوں کی نگاہیں دہائیوں سے جمی ہیں۔ 2001ء میں امریکی حملے کے بعد جو جمہوریت کے نام پر کیا گیا، افغانوں سے خوش حالی کا وعدہ کیا گیا تھا جو اب خاک میں مل چکا ہے۔ دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکہ اب طالبان کی زیر قیادت اسلامی امارت افغانستان (آئی ای اے) کے ساتھ عملی طور پر معاملات طے کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت جو استحکام کے لیے قائم کی گئی تھی، اب مغربی کارپوریشنوں کے لیے وسائل تک رسائی آسان بناتی ہے، جب کہ افغان عوام کو اس دولت سے بہت کم فائدہ ہوتا ہے وہ غربت اور نقل مکانی کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں جب کہ ان کے پہاڑوں کو لوٹا جا رہا ہے۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے صوبوں میں یہ استحصال واضح طور پر نمایاں ہے جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود مقامی آبادیوں کو معاشی، سماجی اور سیاسی نقصانات کے علاوہ جنگی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خیبر پختون خوا کے بلند و بالا پہاڑ تانبے، کرومائیٹ، انٹی منی اور قیمتیی/ نیم قیمتیی پتھروں جیسے گرینائٹ اونیکس، نیفرائٹ، ٹوپاز، کوارٹز، زمرد اور نیلم سے مالا مال ہیں، جو اسے معدنی دولت کا ایک اہم مرکز بناتے ہیں۔ تاہم، اس خطے کے رہائشیوں کو اس دولت سے فائدہ اٹھانے کے بہ جائے جبر، پسماندگی اور بد امنی کا سامنا ہے۔ 2025ء کا خیبر پختون خوا مائنز ایکٹ، جو ان دنوں منظوری کے لیے پیش ہوا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں اور خاکی کارپوریشنوں کا جائنٹ وینچر ہے، کو اس قانون کے ذریعے مقامی لوگ جو ان معدنی ذخائر پر کام کرتے ہیں، مکمل طور پر بے روزگا ہوجائیں گے۔ نیا کاروباری اتحاد عالمی سامراج اور خاکی پبلک سیکٹر اداروں کا ہوگا۔ اس قانون میں مقامی ماحولیات کے تحفظ اور کمیونٹیز کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات بہ رائے نام شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر اس قانون سے صوبائی خود مختاری ختم ہوجائے گی ہم صرف اپنے وسائل سے دست بردار نہیں ہورہے بلکہ اپنا اختیار بھی بیچنے جارہے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان میں یہی قانون پاس ہوا ہے اور مقصد یہاں کے تانبے، سونے، لیتھیم، کوبالٹ سمیت بے شمار معدن کے ذخائر قابو کرنے کے لیے ہے، معدنی و قدرتی وسائل بلوچستان کومعاشی امکانات کا ایک اہم مرکز بناتے ہیں۔ لیکن یہ صوبہ دہائیوں سے تنازعات اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں، اکثر ملکی اشرافیہ کے ساتھ مل کر ان وسائل کو بڑے پیمانے پر نکالتی ہیں، لیکن اس عمل سے بلوچ عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس کے برعکس وہ منظم نسل کشی، فوجی دباؤ اور معاشی پسماندگی کے سامنا کررہے ہیں، جو علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ بلوچستان میں فوجی کارروائیاں جو اکثر سیکورٹی کے نام پر کی جاتی ہیں مگر مقصد معدنی وسائل پر قبضہ اور کاروباری مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔
☆ مددگار کٹھ پتلیاں اور مالی سرپرست: یہ بے روک استحصال مقامی حکومتوں اور ان کے غیر ملکی سرپرستوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کے ذریعے جاری رہتا ہے۔ وسائل سے مالا مال ممالک میں حکم ران اکثر دلالوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ رشوت سے خریدے جاتے ہیں، دھمکیوں سے دبائے جاتے ہیں یا نافرمانی پر ہٹا دیے جاتے ہیں۔
گنی میں جہاں ایلومینیم کے خام مال بوک سائٹ کے وسیع ذخائر ہیں، 2021ء میں امریکی حمایت یافتہ فوجی بغاوت نے صدر الفا کونڈے کو ہٹا دیا جب انہوں نے غیر منصفانہ مائننگ معاہدوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ نئی حکومت نے سرمایہ کاروں کو فوراً یقین دہانی کرائی کہ کاروبار جاری رہے گا۔ پیرو میں تانبے کی کان کنی کے خلاف مقامی مزاحمت کو ریاستی تشدد سے کچل دیا جاتا ہے جو اکثر معاشی ترقی کے نام پر جواز پیش کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کی حکومت نے وسائل کے استحصال کو ترجیح دی۔ فوجی طاقت سے مزاحمت کو دبایا جب کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف بیانیہ معاشی مقاصد کو چھپاتا ہے۔
☆ نجات کا راستہ: یہ جدید سامراجی مشینری مضبوط ہے، لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اجتماعی عمل نے عظیم سلطنتوں کو گرایا ہے جیسے کہ اپارتھائیڈ کا خاتمہ یا صنعتی دور کی مزدور تحریکیں۔ کیا یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے…؟
وسائل کی صوبائی خود مختاری جو 18 ویں ترمیم کے ذریعے حاصل کی گئی اس میں ممکنہ تحفظ موجود ہے مگر اب اسے بھی ختم یا کم زور کرنے کی مستقل کوششیں ہورہی ہیں۔ خاکی اشرافیہ صوبوں میں کٹھ پتلیاں نصب کرکے پنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ دو قدم اور آگے بڑھ کر نئے سوشل کنٹریکٹ کی جدوجہد کرنا ہوگی ۔ مکمل داخلی خود مختاری کے بغیر یہ کھیل ختم نہیں ہوگا۔ 1980ء کی دہائی کی اپارتھائیڈ مخالف تحریک کے طرز پر عالمی سامراج اور انکے مقامی گماشتوں کے خلاف جدوجہد منظم کرنی پڑے گی۔ عوامی سطح پر مزاحمت پہلے ہی جنم لے رہی ہے اور یہ صرف مقامی طور پر نہیں بلکہ عالمی منظرنامے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایکواڈور کے واوانی نے 2019ء میں تیل کی کھدائی کے خلاف قانونی فتح حاصل کی جب کہ نائیجیریا کے اوگونی نے شیل کے خلاف دہائیوں سے لڑائی جاری رکھی۔ بلوچستان میں مقامی تحریکیں منصفانہ وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کرتی ہیں، حالاں کہ انہیں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ یہ مزاحمتیں ایک بڑھتی ہوئی تحریک کی نشاندہی کرتی ہیں جو موجودہ راستے کو بدل سکتی ہے۔
زمین کے وسائل چند ارب پتیوں یا کارپوریشنوں کی ملکیت نہیں، بلکہ اربوں انسانوں کے مشترکہ ورثے ہیں۔ اس لوٹ مار کو جاری رہنے دینا اپنی ہی کم زوری کو قبول کرنا ہے لیکن متبادل موجود ہے۔ اگر کافی آوازیں بلند ہوں اور ہاتھ مل جائیں، تو استحصال کا یہ چکر توڑا جا سکتا ہے۔ چیلنج نظام کی طاقت میں نہیں، بلکہ ہماری عمل کی خواہش میں ہے لہذا فیصلے کا وقت آ گیا ہے۔
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔