اگست 1948ء کا مہینہ تھا۔ پاکستان کے عوام آزادی کی پہلی سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ریاستی سطح پر یہ فیصلہ ہوا تھا آزادی کی پہلی سالگرہ 14 اگست 1948 کو منائی جائے گی۔
اس سالگرہ سے صرف دو روز قبل صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کے شہر چارسدہ کے گاؤں بابڑہ سے اطلاع آئی کہ صوبے کے وزیرِ اعلا عبدالقیوم خان کی حکومت کی ایک مبینہ کارروائی کے نتیجے میں 600 سے زیادہ خدائی خدمت گاروں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
قارئین، اس واقعے کے اسباب و عوامل بیان کرنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
1937ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد گورنر سرحد نے صاحب زادہ عبدالقیوم خان کو صوبے کا وزیرِ اعلا بنا دیا مگر جلد ہی “تحریکِ عدمِ اعتماد” (Motion of no confidence) کے ذریعے ان کی وزارت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں صوبہ سرحد میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر خان صاحب (باچا خانکےبڑے بھائی) کی قیادت میں خدائی خدمت گار تحریک کی وزارت قائم ہوئی۔
1939ء میں انگریزوں کی جنگی پالیسی کے خلاف جب ہندوستان کے آٹھ صوبوں کی وزارتوں نے احتجاجاً استعفیٰ دیا، تو ان میں صوبہ سرحد کی ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت بھی شامل تھی۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد صوبہ سرحد میں ایک مرتبہ پھر خدائی خدمت گار تحریک کی وزارت قائم ہوئی اور ڈاکٹر خان صاحب ایک مرتبہ پھر صوبے کے وزیرِ اعلا بن گئے۔
قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے صوبہ سرحد میں پاکستان میں شمولیت اور عدمِ شمولیت کے سوال پر ایک ریفرینڈم (Referendum) منعقد ہوا۔ خدائی خدمت گار تحریک نے اس ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا اور نتیجتاً یہ ریفرینڈم مسلم لیگ نے با آسانی جیت لیا اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہو گیا۔
قیامِ پاکستان کے وقت ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلا تھے۔ مگر فقط آٹھ دن بعد یعنی 22 اگست 1947ء کو قائدِ اعظم نے ان کی وزارت برطرف کر دی۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے 15 اگست 1947ء کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت نہ کر کے “ملک سے عدمِ وفاداری” کا ثبوت دیا ہے۔
ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کی برطرفی کے بعد عبدالقیوم خان کو صوبے کا وزیرِ اعلا بنا دیا گیا۔ باچا خان کا اصولی مؤقف یہ تھا کہ چوں کہ خدائی خدمت گار کانگریس کے اتحادی ہیں اور کانگریس ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے اصول کو مان چکی ہے، اس لیے منطقی نتیجے کے طور پر خدائی خدمت گار بھی پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں۔
یہی منطقی بنیاد تھی جس کی بنیاد پر باچا خان نے ہندوستان کی بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی اور نئے حکم رانوں کا پہلا نشانہ یہی حکومت بنی۔ اس کے باوجود خدائی خدمت گاروں نے برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اپنے ہیڈ کوارٹر سردریاب میں پاکستان سے وفاداری اور اس کی خدمت کا عہد نبھایا۔ انھوں نے ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کو برطرف کرنے کے غیر جمہوری اقدام کے خلاف احتجاج کیا لیکن نئی مرکزی اور صوبائی حکومت کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہ کرنے کا اعلان کیا۔
یہی نہیں مارچ 1948ء میں باچا خان نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاسوں میں بھر پور شرکت کی۔ ان اجلاسوں میں پاکستان سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ ان کا پروگرام تخریبی نہیں تعمیری ہے اور خدائی خدمت گار تحریک بنیادی طور پر اصلاحی اور سماجی تحریک ہے جسے انگریزوں نے سیاسی عمل اور کانگریس کے ساتھ اشتراک کی جانب دھکیل دیا تھا۔
اس سے قبل بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے باچا خان کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا، تو دونوں کے درمیان دل کھول کر باتیں ہوئی تھیں۔ انھوں نے بانیِ پاکستان کو ایک بار پھر یقین دلایا تھا کہ وہ پاکستان کے وفا دار ہیں اور چوں کہ ان کے متعلق بعض حلقوں میں شکوک ہیں اس لیے جب تک وہ شکوک رفع نہیں ہو جاتے وہ سیاست میں عملی حصہ نہیں لیں گے اور اپنی سرگرمیوں کو صرف اصلاحی پروگرام تک محدود رکھیں گے۔
اس ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں باچا خان نے بتایا کہ “میری صاف صاف باتوں سے، جو مَیں نے نہایت دیانت داری سے کہی تھیں، قائدِ اعظم کی بالکل تسلی ہو گئی اور انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے نہایت پیار سے رخصت کیا۔”
لیکن اپریل میں جب بانیِ پاکستان پشاور کے دورے پر تشریف لائے، تو انھی سیاسی طالع آزماؤں نے اُن کے کان میں یہ ڈالا کہ باچا خان اور ان کی تنظیم کے لوگ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
یہاں تک سُنا جاتا ہے کہ انھوں نے قائدِ اعظم کو یہ تک کہا کہ اگر وہ خدائی خدمت گاروں کی دعوت پر ان کی کسی تقریب میں گئے، تو ان کی زندگی تک کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
باچا خان نے کہا کہ جب میں گورنمنٹ ہاؤس میں قائدِ اعظم کے پاس یہ دعوت نامہ لے کر گیا کہ وہ خدائی خدمت گاروں کی طرف سے دی جانے والی ایک تقریب میں شمولیت فرمائیں، تو قائدِ اعظم نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ باچا خان، جو مفاہمت کے لیے کوشاں تھے، اُلٹا حکومت کے معتوب بن گئے اور قیوم خان ایک آمرِ مطلق بن کر انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے۔
08 مئی 1948ء کو باچا خان نے کراچی میں سیاسی کارکنوں کے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ جس میں ایک نئی سیاسی تنظیم “پیپلز پارٹی” کو تشکیل دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔ یہ پارٹی ایک آئینی اپوزیشن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تشکیل دی جا رہی تھی۔ باچا خان کے دیگر ساتھیوں میں جی ایم سید اور عبدالصمد خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ باچا خان اس نئی تنظیم کے صدر اور جی ایم سید جنرل سیکریٹری چنے گئے۔
پیپلز پارٹی کے اغراض و مقاصد میں صوبائی خود مختاری عوام کی تائید و رضا مندی سے ترقی پسند سماجی تبدیلیاں اور ہندوستان سمیت تمام پڑوسی ملکوں سے دوستانہ ثقافتی تعلقات شامل تھے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ خدائی خدمت گار تحریک کا اپنا الگ تشخص قائم رہے گا۔ یہ نئی سیاسی جماعت کے لیے والنٹیر کور کی خدمات انجام دے گی اور اسے تمام صوبوں میں پھیلایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے باچا خان سرحد واپس آئے اور صوبے کا دورہ شروع کر دیا لیکن ایک ماہ کے اندر ہی 15 جون کو وہ اپنے بیٹے خان عبدالولی خان اور قاضی عطا اللہ خان سمیت گرفتار کر لیے گئے۔
عبدالصمد اچکزئی کو بھی حراست میں لیا گیا اور جی ایم سید کو کراچی سے نکال دیا گیا۔ یوں ایک نئی سیاسی تنظیم جو جمہوری عمل اور سیاسی آزادیوں کی جد و جہد کے ذریعے پورے ملک میں قومی یَک جہتی کے لیے اپنے کام کا آغاز کر رہی تھی، اپنی پیدائش کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔
لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ جولائی میں صوبہ سرحد کی حکومت نے “پبلک سیفٹی آرڈیننس” (Public Safety Ordinance) کے ذریعے خدائی خدمت تحریک کو بھی خلافِ قانون قرار دے دیا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ بغیر کوئی وجہ بتائے کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں لے سکتی ہے اور اس کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے۔ حراست میں لیے گئے شخص کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کو کسی عدالت میں چیلنج کر سکے۔ مذکورہ آرڈیننس کے تحت متعدد لوگ گرفتار ہوئے اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ جن میں باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطا اللہ خان اور ارباب عبدالغفور سمیت دیگر لوگ بھی شامل تھے۔
قارئین، قدرتی طور پر باچا خان اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی کا خدائی خدمت گار تنظیم کے ارکان میں بہت شدید ردِعمل ہوا۔ جولائی 1948ء کے اواخر میں باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ان نظر بندیوں کے خلاف چارسدہ کے نزدیک بابڑہ کے مقام پر ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا، تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
پانچ اگست کو چارسدہ کے ڈویژن مجسٹریٹ نے اس علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ لیکن ڈاکٹر خان صاحب کے اعلان کے مطابق 12 اگست 1948ء کو صوبے بھر سے خدائی خدمت گار تنظیم کے ارکان بابڑہ جمع ہو گئے جن کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس مظاہرے کو روکنے کے لیے صوبائی انتظامیہ نے پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی بھاری نفری بلا لی۔ ہزاروں لوگ جمع ہو چکے تھے کہ اچانک نہتے کارکنوں پر گولیاں برسنے لگیں۔
اس فائرنگ کے نتیجے میں سرکاری اعلان کے مطابق 25 افراد شہید جب کہ 35 زخمی ہوئے۔ مگر غیر سرکاری اندازے کے مطابق اس “قتلِ عام” میں مرنے والوں کی تعداد 600 سے زیادہ تھی۔ بیشتر لاشوں کو نہایت پرسرار طریقے سے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ زخمیوں کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت نہ دی گئی اور انھیں طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔
قیوم خان نے فائرنگ کے فوراً بعد “چوکِ یادگار” پشاور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے “بابڑہ میں خدائی خدمت گاروں کو وہ سبق دیا ہے جسے وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔ مَیں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی، جب لوگ منتشر نہیں ہوئے، تو تب ان پر فائرنگ کی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا ورنہ وہاں سے ایک بھی آدمی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ انگریزوں کی نہیں مسلم لیگ کی حکومت ہے اور اس حکومت کا نام قیوم خان ہے۔ خدائی خدمت گار ملک کے غدار ہیں۔ میں ان کا نام و نشان مٹا دوں گا۔”
قیوم خان نے مزید کہا کہ “سرخ پوشوں نے اپنے لیڈر باچا خان کی گرفتاری کے بعد سول نافرمانی کی تحریک شروع کر کے پورے صوبے میں بد امنی پھیلانے کا پروگرام بنایا تھا۔ ان کے پاس بغیر لائسنس ہتھیار تھے اور وہ پورے صوبے کی صورتِ حال کو خراب کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ اگر وہ بے امنی پھیلانے میں کام یاب ہو جاتے، تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔”
قارئین، صوبہ سرحد کی صورتِ حال تو آپ نے ملاحظہ کی مگر ملک کے دیگر حصے خصوصاً صوبہ پنجاب میں قیوم خان حکومت کی اس کارروائی کی مذمت کرنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ البتہ ایسے عناصر کی تعداد خاصی زیادہ تھی جو سرحد کے اس “مردِ آہن” کی تعریف کر رہے تھے۔ انھیں خوش فہمی تھی کہ اس کارروائی کے نتیجے میں “پختونستان” کا فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ بعض عناصر ایسے بھی تھے جو قیوم خان کو ایک مثالی حکم ران قرار دیتے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی حکومت ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور جو عناصر اسلام اور پاکستان کے مخالف ہیں، انھیں مکمل طور پر کچل دینا چاہیے۔
قارئین، سانحہ بابڑہ کے واقعے پر روزنامہ “نوائے وقت” کا ادارتی تبصرہ یہ تھا کہ “صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلا عبدالقیوم خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے صوبے میں غداروں پر کڑی نگرانی رکھی۔ جو لوگ قیوم خان پر دہشت پسندی اور ڈکٹیٹر شپ کا الزام عائد کر رہے ہیں وہ صوبہ سرحد کے صحیح حالات سے واقف نہیں اور اگر حالات سے واقفیت کے باوجود وہ وزیرِ اعلا سرحد کو کوس رہے ہیں، تو ان کی عقل یا نیت میں سے ایک کا ماتم کرنا پڑے گا۔”
اداریے میں مزید لکھا گیا تھا کہ عبدالقیوم خان پر ہزار اعتراض کیے جا سکتے ہوں گے مگر جہاں تک غداروں کے خلاف کارروائی اور ان کی بیخ کنی کا تعلق ہے، ہم انھیں خراجِ تحسین ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ قائدِ اعظم اور حکومتِ پاکستان کی بھی اس معاملے میں یہی رائے ہے اور عبدالقیوم خان کو ان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو کچلنے کے لیے قیوم خان اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں، تو ہم اس کی شدید مذمت کریں گے لیکن وہ قومی غداروں کو کچلنے کے لیے سختی برتتے ہیں، تو مبارک باد کے مستحق ہیں۔”
نوائے وقت کا یہ ادارتی تبصرہ تو زاہد چوہدری کی پاکستان کی سیاسی تاریخ کی آٹھویں جلد کی مدد سے نقل کیا گیا ہے۔ تاہم، اس سانحے کے اگلے روز لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ “انقلاب” کا عکس ہمیں اس روزنامہ کے مدیر غلام رسول مہر کے فرزند امجد سلیم علوی نے فراہم کیا ہے۔ اس روزنامے میں شائع ہونے والی خبر میں بھی اس سانحے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
اس قتلِ عام پر خدائی خدمت گاروں کی جانب سے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا لیکن نہ تو کبھی کوئی عدالتی کمیشن بنا اور نہ ہی اس واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔ ہماری تاریخ میں “جلیانوالہ باغ” اور “قصہ خوانی بازار” کے سانحے کا تذکرہ تو موجود ہے مگر بابڑہ کے حوالے سے تمام تاریخیں خاموش ہیں۔
پختون قوم اس واقعے کو سرحد کا “جلیانوالہ باغ” قرار دیتے ہیں اور عبدالقیوم خان کو سرحد کے جنرل ڈائر کے خطاب سے یاد کرتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جس وقت بابڑہ کا یہ سانحہ پیش آیا، اُس وقت بانیِ پاکستان قائدِ اعظم زندہ تھے اور زیارت میں اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑ رہے تھے۔
بَہ شکریہ، بی بی سی (اُردو)