30 جولائی 1897ء کی صبح درگئی سے نمبر 31 پنجاب انفنٹری کا دو سو (200) سپاہیوں پر مشتمل تازہ دم دستہ ملاکنڈ پہنچا اور دفاعی مورچے بنانے میں مصروف ہوگیا۔جب کہ قریبی پہاڑوں میں موجود قبائلی لشکر وقفے وقفے سے گولیاں برساتے رہے۔
In the afternoon, the tribesmen appeared in greater numbers than before, confirming reports that re-enforcements from Buner were joining the attackers.  The attack on the camp was resumed that night, but not pressed with the same vigour as on previous nights.
دوسری طرف چوں کہ 29 جولائی کو قبائلی لشکر چکدرہ قلعہ پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوچکا تھا، اس لیے 30 جولائی کو قبائلی لشکر نے چکدرہ قلعے پر نئے سرے سے حملے کی تیاری شروع کی۔ اس بار باجوڑی قبائلی لشکر بھی اس حملے میں شرکت کرنے کے لیے آ پہنچا۔
The tribesmen appeared to be losing confidence in their ability to take the fort.  Although there was some desultory firing, an attack was not launched until 5pm, enabling some of the garrison to rest for the first time since the siege began.  The attack had little of the ferocity of the previous days and was over within a couple of hours.  The attackers were joined by tribesmen from Bajaur..
(جنگ جاری ہے … مزید تفصیل اگلی قسط میں)
بہ حوالہ، امجد علی اُتمان خیل کی کتاب “سرتور فقیر، جنگِ ملاکنڈ 1897ء کا عظیم مجاہد”
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: